Search

خطبات

مضمون 11: خیمۂ اِجتماع

[11-26] خیمۂ اِجتماع کےلیےاستعمال ہونےوالے چاندی کےخانوں کا روحانی مطلب <خروج ۲۶:۱۵-۳۰>

خیمۂ اِجتماع کےلیےاستعمال ہونےوالے  چاندی کےخانوں کا روحانی مطلب
<خروج ۲۶:۱۵-۳۰<
”اور تُو مسکن کے لِئے کِیکر کی لکڑی کے تختے بنانا کہ کھڑے کِئے جائیں۔ہر تختہ کی لمبائی دس ہاتھ اور چَوڑائی ڈیڑھ ہاتھ ہو۔اور ہر تختہ میں دو دو چُولیں ہوں جو ایک دُوسری سے مِلی ہُوئی ہوں۔ مسکن کے سب تختے اِسی طرح کے بنانا۔اور مسکن کے لِئے جو تختے تُو بنائے گا اُن میں سے بِیس تختے جنُوبی سِمت کے لِئے ہوں۔اور اِن بِیسوں تختوں کے نِیچے چاندی کے چالِیس خانے بنانا یعنی ہر ایک تختہ کے نِیچے اُس کی دونوں چُولوں کے لِئے دو دو خانے۔اور مسکن کی دُوسری طرف یعنی شِمالی سِمت کے لِئے بِیس تختے ہوں۔اور اُن کے لِئے بھی چاندی کے چالیس ہی خانے ہوں یعنی ایک ایک تختہ کے نِیچے دو دو خانے۔اور مسکن کے پِچھلے حِصّہ کے لِئے مغرِبی سِمت میں چھ تختے بنانا۔اور اُسی پَچھلے حِصّہ میں مسکن کے کونوں کے لِئے دو تختے بنانا۔یہ نِیچے سے دُہرے ہوں اور اِسی طرح اُوپر کے سِرے تک آ کر ایک حلقہ میں مِلائے جائیں۔ دونوں تختے اِسی ڈھب کے ہوں۔ یہ تختے دونوں کونوں کے لِئے ہوں گے۔پس آٹھ تختے اور چاندی کے سولہ خانے ہوں گے یعنی ایک ایک تختہ کے لِئے دو دو خانے۔اور تُو کِیکر کی لکڑی کے بینڈے بنانا۔ پانچ بینڈے مسکن کے ایک پہلُو کے تختوں کے لِئے۔اور پانچ بینڈے مسکن کے دُوسرے پہلُو کے تختوں کے لِئے اور پانچ بینڈے مسکن کے پِچھلے حِصّہ یعنی مغرِبی سِمت کے تختوں کے لِئے۔اور وسطی بینڈا جو تختوں کے بِیچ میں ہو وہ خَیمہ کی ایک حد سے دُوسری حد تک پُہنچے۔اور تُو تختوں کو سونے سے منڈھنا اور بینڈوں کے گھروں کے لِئے سونے کے کڑے بنانا اور بینڈوں کو بھی سونے سے منڈھنا۔اور تُو مسکن کو اُسی نمُونہ کے مُطابِق بنانا جو پہاڑ پر تُجھے دِکھایا گیا ہے۔“
 
 
خیمۂ اِجتماع کے تختے جہاں خُدا رہتا تھا سب سونے سے  منڈھے ہوئے تھے۔ خیمۂ  اِجتماع کے ہر
تختے کو سیدھا کھڑا کرنے کے لیے، خُدا نے مُوسیٰ سے کہا کہ چاندی کے دو خانے بنائے۔ ہر تختے کے نیچے چاندی کے دو خانےبنانے کا روحانی مفہوم کچھ یوں ہے۔ بائبل میں، سونے سے مراد وہ ایمان ہے جو وقت کے ساتھ نہیں بدلتا۔ کہ چاندی کے یہ خانےاِس سونے سےمنڈھے ہوئے تختوں کے نیچے رکھے گئے تھے اِس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں دو تحفے دیئے ہیں جو ہماری نجات کی ضمانت ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اِس کا مطلب ہے کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر اور اپنا خون بہا کر گناہ سے ہماری نجات کو مکمل کِیا۔
ہمارے لیے خالص سونے کی طرح اِس ایمان کو حاصل کرنے کے لیے کیا بالکل ضروری ہے جو ہمیں خُدا کے لوگ بننے اور اُس کی بادشاہی کا حصہ بننے کے قابل بناتا ہے وہ ایمان ہے جو یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب کے اُس کے خون پر یقین رکھتا ہے۔ پانی اور روح کی خوشخبری جو خُدا نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں کو مٹانے کے لیے دی ہے ایمان کا تحفہ ہے جو ہمارے لیے بالکل ضروری ہے۔ کیونکہ ہم روزمرّہ گناہ کرنے اور جہنم کے پابند ہونے سےبچ نہیں  سکتے، ہم اپنی کوششوں، طاقت، یا مرضی سے اپنے گناہوں کو غائب نہیں کر سکتے۔
اپنے تمام گناہوں کو مٹانے کے لیے، اپنی طاقت پر بھروسہ کرنے کے بجائے، ہمیں صرف پانی اور روح کی خوشخبری پرایمان رکھنا چاہیے، اور تب ہی ہم اپنے گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے لیے شکرگزاری پر یقین کرنا درست ہے کہ خُداوند ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری سچائی کے ذریعے نجات کا تحفہ دےچکا ہے۔ جب ہم خوشخبری کے اِن دو اجزاء سے بنے نجات کے تحفے پرایمان رکھتے ہیں، تو ہمارے اِس ایمان کو دیکھ کر، خُدا ہمیں اپنے کامل لوگ بناتا ہے۔ اِس لیے، اگر آپ کے دل میں اب بھی کوئی گناہ ہے، تو آپ کو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان لا کر مکمل طور پر نجات پانی  چاہیے جو خُدا ہمیں بچانے کے لیے اپنے تحفے کے طور پر دےچکاہے۔
اِس دُنیا میں رہنے والے بہت سے لوگ خُدا کے اپنے لوگ بننا چاہتے ہیں۔ خُدا کے لوگ بننے کے لیے، ہمیں پہلے اپنے آپ کو خُدا کے کلام کی روشنی سے منعکس کرنا چاہیے اور اِس کے مطابق خود کو جانچنا چاہیے۔ تب، ہم دیکھیں گے کہ ہم سب گنہگار ہیں جن کےپاس احتجاج کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے چاہے ہمیں اپنے گناہوں کی سزا کیوں نہ دی جائے۔ ہم وہ ہیں جو ہر روز شریعت کے خلاف گناہ کرتے ہیں۔ ہمارے حقیقی نفس ایسے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کو ناراستی اور گناہ میں سرایت کیے بغیر نہیں رہ سکتے، اوراپنی عدالت  کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے، ہم خُدا کے اپنے لوگ کیسے بن سکتے ہیں؟ اِس طرح ہم نجات کے دو تحفے حاصل کرنے کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں جو خُدا نے ہمیں اُس کے اپنے لوگ بننے کے لئے دئیےہیں۔
ہمارے لیے، خُداوند وہ نجات دہندہ ہے جس نے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے ہمارے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے۔ بپتسمہ جو یِسُوعؔ مسیح نے یوحنا اِصطباغی سے حاصل کِیا  تھا اور خون جواُس نے صلیب پر بہایا تھا ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے مکمل طور پر بچاچکےہیں۔ یہ دونوں عناصر ہماری نجات کے لیے ناگزیر ہیں۔ اِس لیے، اِس سچائی پر ایمان رکھے  بغیر کوئی بھی شخص خُدا کا بندہ نہیں بن سکتا۔
نجات کے اِن دو تحفوں کے ذریعے جو خُدا نے ہمیں دئیےہیں، ہم صحیح معنوں میں اُس کے لوگ بن سکتے ہیں۔ کہ ہم خُدا کے بچے بن گئے ہیں اِس کا ہمارے اپنے اچھے اعمال سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہ ہم اپنے تمام گناہوں اور گناہ کی تمام سزا سے نجات اور رہائی پاچکےہیں،یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون بہانےکے کاموں کے ذریعے مکمل طور پر ممکن ہے۔ دوسرے لفظوں میں، پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے  سے ہی ہم خُدا کے فرزند بن گئے ہیں۔ ہمارا ایمان جو خالص سونے جیسا ہے خُدا کے اِن تحفوں کو حاصل کرنے سے تعمیرہوچکا ہے۔
خیمۂ اِجتماع بنانے میں، خُدا نے اِس کے ہر تختے کے نیچے چاندی کے دو خانےبنائے۔ یہ سچائی ہمیں بتاتی ہے کہ یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر آیا، یوحنا اِصطباغی کے ذریعہ دریائے یردن میں بپتسمہ لے کر بنی نوع اِنسان کے تمام گناہوں کو اپنے ذمہ لے لیا، اور اِن گناہوں کو صلیب پر لے جا کر اور اِس پر مر کر گناہ کی سزا کو برداشت کِیا۔ بپتسمہ جو یِسُوعؔ نےحاصل کِیا اور خون جو اُس نے صلیب پر بہایا وہ گناہوں کی یقینی معافی کے تحفے ہیں۔
آپ اور مَیں جو اِس دَور میں رہ رہے ہیں ہمیں یقیناً اپنی گناہگارذات کو جاننا چاہیے۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو خُدا کے سامنے جانتے ہیں اُن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ خُداوند واقعی اِس زمین پر آیا، یوحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لے کر اُن کے گناہوں کواپنے اوپر اُٹھا لیا، اور صلیب پر مر گیا، وہ اُن کو اُن کے تمام گناہوں اورسزا سے بچاچکاہے۔ جب ہم نجات کے تحفے پر ایمان رکھتے ہیں اور اِس طرح اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں، تو ہم اُس کے سامنے خُدا کے اپنے بچے بن جاتے ہیں۔ یہ اِس لیے ہے کہ خُداوند ہمیں اپنے بپتسمہ اور صلیب کے خون سے بچاچکا ہے کہ ہم گناہ سے نجات پاچکےہیں؛ اگر اُس نے ایسا نہ کِیا ہوتا، تو ہم کبھی بھی اپنے آپ کواپنےطورپر گناہ سے مکمل طور پر آزاد نہیں کر سکتے تھے۔ اِس لیے ،ہم بچ نہیں سکتے بلکہ اِس بات پر ایمان رکھتے اور اِقرارکرتےہیں کہ یہ سو فیصد خُدا کے فضل سے ہے کہ آپ اور مَیں خُدا کےلوگ اور راستباز بن چکے ہیں۔
خیمۂ اِجتماع کے تختوں کے لیے چاندی کےخانے ہمیں دکھاتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کی معافی مکمل طور پر خُدا کا تحفہ ہے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کے ذریعے پورا ہوتا ہے۔ یہ ہےکیونکہ خُداہمیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کے ساتھ نجات کا فضل عطا کرچکاہے کہ ہم ایمان کے ذریعے مکمل طور پر نجات پا سکتے ہیں۔ صرف وہی لوگ جو روح کے غریب ہیں، جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے گناہوں کے لیے جہنم کے پابند ہونے سے بچ نہیں سکتے، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کے ذریعے خُدا کی دی گئی نجات پانے کے اہل ہیں۔ صرف وہی لوگ جو اپنے آپ پر غم اور ماتم کرتے ہیں، کہ اُن کا مقدرجہنم میں ہے، خُدا کی طرف سے دی گئی نجات کا تحفہ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ وہ لوگ جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان، پانی اور روح کی خوشخبری جو خُدا باپ نے یِسُوعؔ مسیح کے وسیلے سے دی ہے، میں ظاہر ہونے والی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں، خُدا کے بچےبننےکےلیےاپنے تمام گناہوں سے نجات پا سکتے ہیں۔صرف وہی لوگ جوخُداوند کی طرف سے دی گئی نجات کا تحفہ حاصل کرتے ہیں خُدا کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہیں۔ یہ ایک قابلیت ہے جو صرف اُن لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے جو جانتے ہیں کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جکڑے ہوئے ہیں اور خُدا سے اُس کی رحمت کی درخواست کرتے ہیں۔ واقعی ایسا ہی ہے۔
یہ کہ ہم اپنے تمام گناہوں سے بچائے گئے نجات کے تحفے کی وجہ سے ہے جو خُدا نے ہمیں دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افسیوں ۲:۸فرماتا ہے،  ’’ تُم کو اِیمان کے وسِیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے ۔ ‘‘ یہ کہ ہم خُدا کے بچے بن چکےہیں اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نجات کے اِس تحفے پر یقین کِیا ہے۔ اِس کو دیکھتے ہوئے، ہمارے لئے فخر کرنے کے لئے کیا ہے؟ فخر کرنے سے بہت دُور، ہم  بچ نہیں سکتے بلکہ صرف خُدا کی حمد کر سکتےہیں،یہ اِقرار کرتے ہوئے کہ یہ ہم نہیں بلکہ خُدا ہے جس نے ہمیں بچایا ہے۔
سچ کہوں تو، ہم اپنے تمام گناہوں سے کبھی نہیں بچ سکتے تھے، اگر خُدا نے ہمیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے نہ بچایا ہوتا۔ آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں موجود سچائی پانی اور روح کی خوشخبری کی قدرت سے بنی ہے۔ یہ نجات کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے کہ یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر پیدا ہوا ، یوحنا کے ذریعہ دریائے یردن پر بپتسمہ لے کر بنی نوع اِنسان کے تمام گناہوں کو ہمیشہ کے لیے اُٹھا لیا (متی ۳:۱۳-۱۷)، صلیب پر مر گیا، اور پھرمُردوں میں سے جی اُٹھا۔کیونکہ جس فضل سے خُدا نے ہمیں بچایا ہے وہ کامل ہے، یہ ہمیں، جو جسم میں ناکافی اور گناہ سے بھرے ہوئے، ایمان سے کامل کرنے، ہمیں خُدا کی بادشاہی کے ستونوں کے طور پر کھڑا کرنے ، اور ہمیں اُس کی بادشاہی کے لوگوں میں تبدیل کرنے کے لیےکافی ہے۔
 
 
کیاآپ ابھی تک نہیں جانتے کہ آپ واقعی کون ہیں حتیٰ کہ آپ یِسُوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں؟
 
آج کل سینکڑوں ٹی وی چینلز کیبل یا سیٹلائٹ ٹی وی سے دیکھنے کے لیے دستیاب ہیں۔ دن میں ۲۴ گھنٹے چلنے والے یہ چینلز اپنے مخصوص پروگرام چلاتے ہیں اور ناظرین کو مسلسل متوجہ کرتے ہیں۔ اِن چینلز میں، سب سے زیادہ تجارتی طور پر کامیاب خصوصی چینلز، سب سے بڑھ کر، فُحَش نِگارانَہ چینلز ہیں۔ ایسے بہت سے فُحَش چینلز ہیں جہاں ہر قِسم کا فُحَش مواد محض چینلز کوپلٹ کر دیکھنے کےلیے دستیاب ہے۔ نتیجے کے طور پر، اِس عمر کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو اِس طرح کی فُحَش فلموں سے مطمئن کر رہے ہیں۔اِس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ایسے لوگ اب اپنی فُحَش حرکتوں کو گناہ نہیں سمجھتے۔
تاہم، بائبل بتاتی ہے کہ حرامکاری، زنا کاری اورشہوت پرستی، جو ہر اِنسان  کے اندر سے نکلتی ہے، واضح طور پر گناہ ہیں (مرقس ۷:۲۱-۲۳)۔پھر کیا ہم سب گناہوں سے بھرے نہیں؟ خُدا نے بار بار کہا کہ ہمارے اندر جو خواص ہیں وہ گناہ ہیں،کہ گناہ کی مزدوری موت ہے، اور یہ گناہ موت کو جنم دیتا ہے جب یہ مکمل طور پر بڑھ جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی یہ تسلیم کرتے ہیں؟ یہ کیسا ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھیں بند کرکے اور کان ڈھانپ کر گناہ کے اِن خواص سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے اندر ہیں؟ ہم بچ نہیں  سکتے بلکہ اپنے ذہنوں اور خیالات کے تخیلات سے ہر قِسم کےگناہ کرتے ہیں۔ اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو کتنا ہی بتائیں کہ ہمیں ایسے گناہوں سے دُوررہنا ہے، اور اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم ایسا کرنے کی کتنی ہی سخت کوشش کریں، وہ سب بیکار ہیں۔ درحقیقت، ہمارا جسم ایسا ہے کہ نہ صرف ہم کبھی بھی کامل مقدس نہیں بن سکتے جو کوئی جسمانی گناہ نہیں کرتے، بلکہ ہم اصل میں گناہ سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اِس سے دُوری کی خواہش نہیں رکھتے ہیں۔ بنی نوع اِنسان کا جسم اور دل اُن چیزوں سے ہمیشہ دُور رہتے ہیں جو مقدس ہیں، اور یہ سچ ہے کہ وہ نہ صرف گناہ کے قریب ہونا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اِس سے بھی بڑے گناہ کرنا چاہتے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک گناہ اور بدکاریوں کا ایک ڈھیر  ہے۔ اِس لیے ہم اپنے بنیادی جوہر میں زوال پذیر ہیں۔ ہم نے جس فحاشی کی جھلک دیکھی ہو گی وہ طویل عرصے تک ہماری یادوں میں جل کر رہ جاتی ہے،اور دیرپاباقیات ہمارے ذہنوں کو پریشان کر دیتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر اِنسان کا دل اپنے بنیادی جوہر میں گناہ کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا، ہمیں یقیناًایمانداری کے ساتھ خُدا کے سامنے اپنے اندر کی ایسی خصلتوں کو گناہ کی کثرت کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ اور یہ ہمارے لیے دانشمندی ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ ہم خُدا کی راست عدالت  کے ذریعے جہنم کے پابند ہیں اور اُس سے اپنی نجات کے لیے درخواست کریں۔ کیا نپولین بوناپارٹ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ناممکن  وہ لفظ ہے جو صرف احمقوں کی لغت میں پایا جاتاہے‘‘؟  بہت سے مسیحی اپنی ذاتی راستبازی کادکھاوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، گویا وہ اپنے لیے گناہ کرنے سے بالکل بچ سکتے ہیں۔ لیکن یہ خُدا کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ ایسا منحرف ایمان اُنہیں بدکردار لوگوں کے طور پر پھنسا دیتا ہے جو خُدا کی راستبازی حاصل کرنے سے انکار کرتے ہیں اور نجات کی محبت کو بھی ردّ کرتے ہیں جو اُس نے ہمیں دی ہے۔
کیا آپ خود کو اچھا سمجھتے ہیں؟ کیا آپ اپنے طور پر سوچتے ہیں کہ آپ کے پاس انصاف کا ایک مضبوط احساس ہے جو کسی بھی حالت میں اور کسی بھی شکل میں کسی بھی طرح کی ناانصافی کو برداشت نہیں کر سکتا؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ خُدا کے سامنے کسی نہ کسی طرح راستباز ہیں، صرف اِس وجہ سے کہ آپ ہرروزخُدا کے احکام کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اِن  کی اطاعت اور اِن پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اگر کسی کو خُدا کی بخشی ہوئی نجات کےتحفے اور فضل کا علم نہ ہو اور وہ صرف نیکی  کےکام کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ اُس کا دل گناہ سے بھرا رہتا ہے تو وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف گندے اِنسانوں کی راستبازی کے ساتھ راستبازی کا دکھاوا ہے۔ ایسے لوگوں کی نیکی اُنہیں اِس قابل نہیں بنا سکتی کہ وہ خُدا کے گھر کے ستون بن سکیں ،اور وہ صرف گناہ کا ایک گنداڈھیر ہیں۔
مشرقی ایشیا ئی ممالک میں، بہت سے لوگ پیدائش  سے کنفیوشس  کی تعلیمات سیکھتے  ہیں، اور
اِس لیے وہ اِن تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی بہت سخت کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب میں، کیتھولک ازم یا پروٹسٹنٹ ازم نے اپنے مذہبی منظرنامے پر غلبہ حاصل کِیا ہواہے، اور بہت سے مغربی باشندوں نے خُدا کی شریعت کوقائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ لیکن اِس بات سے قطع نظر کہ وہ کہاں سےاُبھرتے ہیں، خواہ مشرق سے ہوں یا مغرب سے، جب وہ اپنے آپ کو خُدا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اپنے حقیقی بنیادی نفسوں سے محروم ہو جاتے ہیں، دونوں وہ لوگ جو کنفیوشس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ جو خُدا کے احکام کےمطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں،سب گناہ کےڈھیراور بدکرداروں کی نسل ایک جیسے ہیں۔ اِنسان بدکردار، عیبوں سے بھرے، گناہوں کےڈھیر ،مٹی اور گندگی سے بنے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ نیک لوگ بھی جنہوں نے اچھے کام اپنی  پہچان کے لیے نہیں کیے بلکہ اپنے خلوص دل سے کیے ہیں ،اور جو اپنے اچھے کاموں کی تعریف حاصل کرنے کے لیے درحقیقت بے چین ہیں، وہ بھی اِس حقیقت سے نہیں بچ سکتے کہ جب اُن کا بنیادی جوہر خُدا کے سامنے آشکار ہو جاتاہے، تو وہ گناہوں کےڈھیراور بدکاروں کی نسل ہیں۔کیونکہ اِنسانی راستبازی خُدا کے نزدیک ایک بہت بڑی بُرائی ہے، لوگ گناہ کی سزا سے اُس وقت تک بچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ اپنی سزا کو تسلیم نہیں کرتے اور پانی اور روح کی خوشخبری، یعنی، خُدا کی محبت کو قبول نہیں کرتے۔ خُدا کے سامنے، تمام انسانی کوششوں کا کسی بھی نیکی میں ترجمہ نہیں کِیا جا سکتا، اور بنی نوع اِنسان کی مرضی اُس کے سامنے محض غلیظ ہے۔ بنی نوع اِنسان کی بنیادی فطرت مٹی، لکڑی اور پیتل کی ہے۔ اِنسان لکڑی کی ایک قِسم ہے جسے خُدا کے گھر کے چوکھٹ پر نہیں اُٹھایا جا سکتا جب تک کہ وہ اُنہیں سونے سے نہ منڈھیں۔ اور خُدا کی طرف سے دی گئی نجات کے فضل کے بغیر، وہ پیتل سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جو بچ نہیں سکتے بلکہ آگ کی عدالت کا سامنا  کرتےہیں۔ اگر ہم نجات کے تحفے پرایمان نہیں رکھتے ہیں، کہ یِسُوعؔ مسیح مسیحا نے ہاتھوں کےرکھےجانےکی صورت میں بپتسمہ لیا اور موت تک خون بہایا، تب  ہم گنہگار ہی رہیں گے۔ اِسی طرح، جو لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ خُداکے سامنے بدکردار انسان ہیں اور جونجات پانے کے لیے خُدا کا تحفہ نہیں حاصل کرچکے، وہ واقعی قابلِ رحم ہیں۔
خُدا کی راستبازی کو جاننے سے پہلے، ہماری اپنی راستبازی ہماری زندگی کا معیار تھی۔ مَیں بھی ایسا ہی تھا جب مَیں خُدا کی طرف سے نجات کے تحفے کو نہیں جانتا تھا اورجب مَیں حقیقی ایمان نہیں رکھتاتھا۔ درحقیقت، مَیں اپنی کوئی راستبازی نہیں رکھتاتھا، لیکن مَیں پھر بھی اپنے آپ کو مہذب سمجھتا تھا۔ اِس لیے بچپن سے لے کر اب تک کئی بار ایسےوقت آئے جب مَیں ناانصافی کو برداشت نہ کر سکا اور اُن لوگوں سے لڑ پڑا جن سے میرا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ زندگی میں میرا فلسفہ عدل و انصاف سے جینا تھا کیونکہ مَیں صرف ایک بار پیدا ہوا تھا اور صرف ایک بار مروں گا۔ میرے خیالات یہ تھے،  ”مَیں اِس طرح کی بے کار زندگی گزارنے کے بجائے مر ناپسند کروں گا، سوائے کھانے کے اَور کچھ نہیں کرنا۔ اگر اِسی کا نام زندگی  ہے تو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مَیں اب مرجاؤں یا مزید ۵۰ سال زندہ رہوں۔ اِس طرح زندگی گزارنا بیزاراور ناگوار ہے۔ بغیر کسی مقصد کے زندگی گزارنا اور زندگی میں کسی عظیم مقصد کے بغیر کوئی نیک کام کرنے سے قاصر رہنا خود جہنم ہے۔ آخر جہنم اور کیا ہے؟ ایک آدمی کے لیے سؤر کی طرح زندہ رہنا، مرتے دم تک صرف اپنے پیٹ کو کھلانا اور پلانا،ذلت کی جہنم ہے۔“ اِسی طرح، کیونکہ مَیں خُدا کے سامنے اپنے آپ کو دیکھنے میں ناکام رہا تھا، مَیں اپنی راستبازی سے بھرا ہوا تھا۔ اِس لیے مَیں نے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھا اورراستبازی سے زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کی۔
لیکن حقیقتاً مَیں خُدا کی راستبازی کے سامنے محض گناہوں کے ڈھیر سے زیادہ نہیں تھا۔ مَیں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو شریعت کی ۶۱۳ شِقوں میں سے ایک کو بھی برقرار رکھ سکتا تھا کہ دس احکام کا توذکر ہی نہ کِیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مَیں نے اِن کو برقرار رکھنے کی خواہش کی تھی ،یہ خود ایک ناراستی کا عمل تھا جس نے خُدا کے کلام کے خلاف بغاوت کی تھی جو اعلان کرتا ہے، ”تم ایک بدکردار وجود ہو جو گناہ کرنے سےبچ نہیں سکتا،جوخُداکےخلاف کھڑےہوناہے۔“ بنی نوع اِنسان کی تمام راستبازی خُدا کے سامنے صرف ناراستی ہی ثابت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِنسان محض سادگی سےراستباز نہیں بن سکتا۔ درحقیقت، یہ موجودہ دَور آخری دَور ہے جس کا بہاؤ زوال اور بدعنوانی کی ثقافت اور گناہوں کی لپیٹ میں ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا جسم مسلسل ایسے بے حیائی اور فحش گناہوں کی گرفت میں رہتا ہے، اور یہ کہ ہم دراصل اپنی زندگیوں میں یہ گناہ کرتےرہتے ہیں۔ درحقیقت، ہمارے جسم  اِن ناقابل بیان حد تک غلیظ گناہوں کی طرف ہمیشہ گھسیٹاجاتا ہے، اور اِس میں کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی جا سکتی۔
  
 
ہم ناراست اور گناہ سے بھرے ہوئے تھے، لیکن اب خُداوند ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں سے بچا کر اپنے لوگ بنا چکاہے
 
ہم سب ناراست تھے، لیکن نجات کے تحفے کے ذریعے، خُداوند ہم جیسے لوگوں کو ہمارے تمام گناہوں سے بچاچکا ہے۔پاک مقام، خُدا کے گھر کے تختے، ہر ایک کی اونچائی ۵.۴ میٹر اور چوڑائی ۶۷۵ملی میٹر تھی، سونے سے منڈھے ہوئے تھے اور مقدس مقام کی دیواروں کےطورپراُٹھائے گئے تھے۔ ہر تختے کے نیچے چاندی کے دو خانےبنائے گئے تھے۔ یہ چاندی کے خانے یہاں ظاہر کرتے ہیں کہ خُدا نے آپ کو اور مجھے مکمل طور پر بذاتِ خود بچایا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ خُدا نے اپنی محبت سے ہمیں گناہ سے بچایا ہے۔ اِس محبت میں، یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر آیااور ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لیے بپتسمہ لیا، صلیب پر مر کر ہمارے گناہوں کی سزا کو برداشت کِیا، اِس طرح اُس نے ہمیں دُنیا کے تمام گناہوں اور تمام لعنتوں سے بچایا۔ نجات کے تحفے پر ایمان رکھنے سے جو اُس نے ہمیں دیا ہے، ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں۔ نجات کا یہ خُداوند کا دیا ہوا تحفہ سونے کی طرح لافانی ہے، اور اِسی لیے یہ ہمیشہ کے لیے غیر متبدل ہے۔
خُداوند نے ہمیں جو نجات دی ہے وہ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون سے بنی ہے، اور اِس نے ہمارے تمام گناہوں کو پوری طرح اورنفاست سےمٹا دیا ہے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ خُداوندہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچاچکاہے کہ آپ اور مَیں اِن تمام گناہوں سے مکمل طور پر نجات پا سکتے تھے جو ہم نے اپنے دماغ، اپنے خیالات اور اپنے حقیقی اعمال کے ساتھ کیے ہیں اور کریں گے۔ نجات کے تحفے پر ایمان رکھنے سے جو خُدا نے ہمارے دلوں میں ہمیں دیا ہے، ہم اُس کے قیمتی مقدسین بن گئے ہیں۔ خیمۂ اِجتماع کے تختوں کے ذریعے، جو اِس کے ستون اور دیواریں دونوں تھے، خُدا ہمیں پانی اور روح کی نجات کے بارے میں بتا رہا ہے۔ اور تختوں کے چاندی کے خانوں کے ذریعے، خُدا ہمیں بتا رہا ہے کہ یہ سو فیصد اُس کا فضل اور تحفہ ہے کہ ہم اُس کے بچے بن چکےہیں۔
اگر ہم یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون میں سے اپنا ایمان نکال لیں، تو ہم میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ ہم سب ایسے انسان تھے جو گناہ کے لیے سزا کے پابند تھے۔ ہم صرف فانی تھے جو خُدا کی شریعت کے مطابق ہماری یقینی اموات سے پہلے کانپنے کے پابند تھے جواعلان کرتی ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے؛اور ہمیں ہماری منتظرآگ کی راست عدالت کا احساس اور ماتم کرنا تھا۔ یہ ہے کیوں اگر ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر اپنا ایمان چھوڑ دیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ اب ایک ایسے دَور میں رہتے ہوئے جو گناہ سے بھرا ہوا ہے، ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری قسمت صرف آگ کی عدالت  کا انتظار کرنا تھی۔ یہ وہی ہے جو ہم واقعی تھے، اور پھر بھی ہم پر مکمل طور پر فضل کِیا گیا کیونکہ خُدا نے ہمیں پانی اور روح کی نجات دی ہے۔ مسیحا اِس زمین پر آیا، یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ لیا، اپنا خون بہایا اور صلیب پر مر گیا،پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور اِس طرح اُس نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں، ہماری تمام ناراستی اور ہماری تمام سزا سے بچایا۔ پانی اور روح کی اِس کامل خوشخبری پر ایمان رکھنے سے، اب ہم اپنے تمام گناہوں سے نجات پا چکے ہیں، اور ہم صرف اپنے ایمان کے ساتھ خُدا کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ ہم جسمانی طور پر ناکافی ہیں، ہمارے کارکن اور ساتھی کارکن، خادمین، اور مَیں پانی اور روح کی اِس خوشخبری کی پوری دُنیا میں منادی کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دَوراِس قدرمسخ شدہ ہے، کیونکہ ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں، ہم کسی بھی بدکرداری سے پاک، خالصتاً خُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ کہ ہمیں یہ ذہن ملا ہے یہ ہماری اپنی مرضی سے نہیں ہے بلکہ اِس لیے ہے کہ خُداوند نے ہمیں اپنے فضل سے نجات کا لباس پہنا کر پاکیزگی بخشی ہے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ خُداوندنے ہمیں گناہ اور سزاسے مکمل طور پر بچایا ہے کہ ہم نے اِس نجات کی قدرت کا لباس پہنا ہوا ہے، اور یہ مکمل طور پر اِس کی وجہ سے ہے کہ ہم خالص طور پرخُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ کیونکہ خُداوند نے ہمیں پانی اور روح کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں سے بچایا ہے، مجھے یقین ہے کہ ہم اپنی کمیوں کے باوجود اُس کی خدمت کر سکتے ہیں،ہم اب اپنے گناہوں، کوتاہیوں اور سزاؤں کے پابند نہیں ہیں۔
واقعی ہم پوری دُنیا میں خوشخبری کی منادی نہیں کر سکتےتھے، اگر یہ ہمارےخُداوند کا فضل نہ ہوتا۔ پانی اور روح کی خوشخبری کو پوری دُنیا میں پھیلانا اور اِس خوشخبری کو خالصتاً خدمت کرنا خُداوندکے فضل کے سِوا بالکل ممکن نہیں تھا ۔ یہ ۱۰۰ فیصد خُدا کی نجات کے فضل سے ہے کہ آپ اور مَیں اِس حقیقی خوشخبری کا دفاع اور خدمت کرتے ہوئے ایمان کی زندگیاں گزارنے کے قابل ہوئے  ہیں۔ ہم ایمان کے ذریعے خُدا کی بادشاہی کے ستون اور اِس بادشاہی کے لوگ بن چکے ہیں۔ کیونکہ خُداوند نے ہمیں سونے جیسا ایمان دیا ہے، اب ہم خُدا کے گھر میں رہ سکتے ہیں۔ اِس دَور میں جب دُنیا گناہوں سے ڈھکی ہوئی ہے، اِس دَور میں جب لوگ گناہ میں بہہ کر، خُدا کو بھول رہے ہیں یا اُس کی توہین کر رہے ہیں، ہم صاف پانی سے دُھل چکے ہیں اورصاف ہو گئے ہیں، اور اِس کے نتیجے میں ہم صاف پانی پینے اور روح کی پاکیزگی کے ساتھ خُداوند کی خدمت کرنےکےقابل ہوچکے ہیں ۔ لہٰذا، الفاظ بیان نہیں کر سکتے کہ مَیں اس نعمت کے لیے کتنا گہرائی سےشکر گزار ہوں۔
یہ ہے یقیناًکیسے ہم ایمان سے راستباز بنے۔ ہم راستبازکیسے بن سکتے تھے؟ جب ہم میں کوئی نیکی نہیں تو کیسےہم اپنے آپ کو راستباز کہنےکےقابل ہوسکتےہیں؟ مَیں اور آپ جیسے گناہ گار اِنسان کیسے بے گناہ ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ اپنے جسم کی راستبازی سے بے گناہ اور راستباز بن سکتے تھے؟ جسم کے خیالات، آپ کی اپنی کوششیں، اور آپ کے اپنے اعمال—کیا اِن میں سے کوئی بھی آپ کو ایک راستباز شخص میں بدل سکتا ہے جوبالکل کوئی گناہ نہیں رکھتا؟ کیا آپ صرف پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے سے راستباز بن سکتے تھے؟ کیا آپ صرف آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہونے والی خُدا کی نجات پر اپنے ایمان سے راستباز بن سکتے تھے؟ کیا آپ پانی اور روح کی خوشخبری کے ذریعے اپنی نجات پر ایمان رکھے بغیر راستباز بن سکتے تھے جو مسیح کے ذریعہ پوری ہوئی  تھی اور خُدا کے کلام میں نازل ہوئی تھی؟ آپ کبھی ایسے نہیں بن سکتے تھے! مختصر یہ کہ صرف سُرخ رنگ کے دھاگے پر ایمان رکھنے سے ہم کبھی بھی راستبازنہیں بن سکتے۔
چونکہ یِسُوعؔ مسیح، ہمارے نجات دہندہ اور مسیحا نے دُنیا کے تمام گناہوں کو کندھا دیا، بشمول ہماری ساری زندگی کے تمام گناہوں کو بپتسمہ کے ذریعے جو اُس نے یوحنا اِصطباغی سے حاصل کِیا تاکہ ہماری طرف سے ہمارے تمام گناہوں کو مٹادے، ہم ایمان سے راستباز بن چکے ہیں۔  جس طرح پرانے عہد نامے کے قربانی کے جانور نے گناہ کو قبول کِیا جب گنہگاروں یا سردار کاہن نے اُس کے سر پراپنے ہاتھ رکھے، نئے عہد نامہ کے وقت میں، یِسُوعؔ نے یوحنا اِصطباغی کے ذریعہ بپتسمہ لے کر دُنیا کے تمام گناہوں کو اپنے اوپر قبول کِیا۔ یِسُوعؔ نے اپنے بپتسمہ کے ذریعے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا (متی ۳:۱۵)۔ اور یوحنا بپتسمہ دینے والے نے پکار کر اِس اہم واقعہ کی گواہی دی، ” دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے“ (یوحنا ۱:۲۹) اپنا بپتسمہ حاصل کرنے کے بعد، یِسُوعؔ نے اپنی زندگی کے اگلے تین سال ہماری نجات کے لیے گزارے، ہمارے تمام گناہوں اور سزاؤں کی قیمت کو صلیب پر جا کر اور اپنے جسم کو خُدا کے حوالے کر کےادا کردیااورہمیں نئی ​​زندگی دےچکاہے،جس طرح بھیڑ  اپنے بال کُترنے
والے کے سامنے خاموش رہتی ہے۔
یہ ہے کیونکہ یِسُوعؔ مسیح نے یوحنا اِصطباغی سے ملنے والے بپتسمہ کے ذریعے ہمارے تمام گناہوں کواُٹھا لیا کہ وہ خاموشی سے اپنے آپ کو حوالےکرسکے اور جب رومی سپاہیوں نے اُسےصلیب پر مصلوب کِیا تو اُس کے دونوں ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکےگئے۔ صلیب پر لٹکتے ہوئے، یِسُوعؔ نے اپنا تمام خون بہادیا جو اُس کے دل میں تھا۔ اور اُس نے ہماری نجات کے لیے اپنی خدمت کے آخری مرحلے کو گلے لگایااور، چلاکرکہا، ’’ تمام ہُؤا ‘‘ (یوحنا ۱۹:۳۰) اِس طرح مرنے کے بعد، وہ تیسرےدن پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا، آسمان کی بادشاہی پر چڑھ گیا، اور اِس طرح ہمیں ابدی زندگی دے کر ہمارا نجات دہندہ بن گیا ۔ یوحنا اِصطباغی سے ملنے والے بپتسمہ کے ذریعے دُنیا کے گناہوں کو کندھے پر ڈال کر، اور اپنی صلیب سے، جی اُٹھنےسے، اور آسمان پرچڑھنےسے، یِسُوعؔ ہمارا کامل نجات دہندہ بن چکاہے۔
 
 

اکیلے صلیب کے خون پر ایمان اور رفتہ رفتہ پاکیزگی کا نظریہ آپ کو آپ کے گناہوں سے بالکل نہیں بچاچکےہیں

 
مسیحی صرف یِسُوعؔ کے صلیب کے خون پر ایمان رکھ کر اپنے گناہوں سے مکمل طور پر نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ لوگ ہر روز اپنی آنکھوں اور اعمال سے گناہ کرتے ہیں، وہ صرف صلیب کے خون پرایمان رکھ کراپنے کسی بھی گناہ کو مٹا نہیں سکتے۔ لوگوں کی زندگیوں میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی بدکرداریوں میں سے ایک جنسی بے حیائی ہے۔ جیسا کہ واضح اور فحش جنسیت کی ثقافت اِس دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے، یہ خاص گناہ ہمارے جسم میں پیوست ہے۔ بائبل ہمیں زنا کاری نہ کرنے کا حکم دیتی ہے، لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اِردگرد کے حالات کی وجہ سے، بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اِس گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ خُدا اعلان کرتا ہے کہ صرف شہوت انگیز خیالات رکھنا ہی زنا کاری کا ارتکاب کرنا  ہے، اور پھر بھی جو کچھ ہماری آنکھیں روز دیکھتی ہیں وہ سب فحش ہے۔ اِس لیے لوگ ہر منٹ اور ہر سیکنڈ میں اِس طرح کے فحش گناہ کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ توبہ کی دُعائیں کرکے کیسےخُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مقدس ہو سکتے ہیں؟ وہ کیسےراستباز بن سکتے ہیں؟ کیا اُن کے دل راستباز  ہو جاتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو طویل عرصے تک نظم و ضبط میں رکھتے ہیں اور کسی طرح پاک ہو جاتے ہیں جب وہ بوڑھے ہوجاتےہیں؟ کیا اُن کے کردار شائستہ ہو سکتے ہیں؟ کیا وہ زیادہ صبر کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں! جو ہوتا ہے اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
جب لوگ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو وہ گرم مزاج اور بے صبرے ہو جاتے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ہارمونی تبدیلیاں آتی ہیں، اور یہاں تک کہ وہ لوگ جو پہلے کافی صبر کر چکے تھے، اپنے غصے اور مایوسی کو پرسکون کرنا مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اور وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے پہلے اپنے بارے میں تیزی سےسوچتے ہیں۔ جیسے جیسے اُن کے جسمانی افعال بگڑتےجاتے ہیں، خود کےتحفظ کےلیے اُن کی جبلت مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ جب ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ہم بچے کی طرح ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ جو بچپن میں چار پاؤں پر رینگتا ہے، جوانی میں دو پاؤں پر کھڑا ہوتاہے اور بوڑھے ہونے پر تین پاؤں پر چلتاہے، اِنسان کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا، اور ہر کوئی ایسا ہی ہوتا ہے۔
مسیحی نظریات میں، یہ نظریہ موجود ہے جسے ”رفتہ رفتہ پاکیزگی کا نظریہ“  کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ یہ رکھتا ہے کہ جب مسیحی ایک طویل عرصے تک صلیب پر یِسُوعؔ کی موت پرایمان رکھتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر توبہ کی دعائیں کرتے ہیں، اور روزانہ خُداوند کی خدمت کرتے ہیں، تو وہ آہستہ آہستہ مقدس ہو جاتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جتنا زیادہ وقت گزرتا ہے جب سے ہم  نے  یِسُوعؔ پر ایمان  رکھنا شروع کِیا، اتنا ہی زیادہ ہم ایک ایسے شخص بن جاتے ہیں جس کا گناہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور جس کے اعمال اچھے ہوتے ہیں، اور یہ کہ جب موت قریب آتی ہے، ہم مکمل طور پر مقدس بن چکے ہوتےہیں اور اِس لیے مکمل طور پر بے گناہ بن جاتے ہیں۔  اور یہ بھی سکھاتا ہے کہ چونکہ ہم نے توبہ کی دعائیں ہر وقت ادا کی ہیں، اِس لیے یقیناً ہمارےگناہوں کو ہر روز دھویاجاسکتاہے، جیسا کہ ہمارے کپڑے دھوئے جاتے ہیں۔ اور اِس لیے جب ہم آخر کار مر جائیں گے تو ہم خُدا کے پاس ایسے شخص کے طور پر جائیں گے جو مکمل طور پر  راستباز بن چکا ہوتا ہے۔ بہت سے مسیحی ایسے ہیں جو اِس طرح کا ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک فرضی قیاس آرائی ہے جو اِنسانوں کے بنائے ہوئے خیالات سے جڑی ہوئی ہے۔
رومیوں ۵:۱۹ فرماتا ہے، ’’ کیونکہ جِس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گُنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے۔ ‘‘ یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب ایک آدمی کی فرمانبرداری سے بے گناہ ٹھہرےہیں۔ یِسُوعؔ مسیح نے وہ پورا کِیا جو آپ اور مَیں نہیں کر سکتےتھے جب وہ ذاتی طور پر اِس زمین پر آیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ آپ اور مَیں خود کو گناہ سے آزاد نہیں کر سکتےتھے، یِسُوعؔ نے ہماری طرف سے ہمارے تمام گناہوں کو معاف کر دیا، جو نہ آپ اور نہ ہی میں کبھی کر سکتے تھے۔ اِس زمین پر آ کر، بپتسمہ لے کر، مصلوب ہو کر، اور مُردوں میں سے جی اُٹھ کر، وہ آپ کو اور مجھے بچاچکاہے اور ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے ہمیشہ کے لیے پاک کر دیا۔
خُدا باپ کی مرضی کی تابعداری کرنےسے، یِسُوعؔ مسیح ذاتی طور پر ہماری نجات کو پورا کر سکتا تھا، جسے ہمارے گناہوں کی معافی بھی کہا جاتا ہے۔مسیحا کے طور پر خُدا کی مرضی کی اطاعت کرتے ہوئے، یِسُوعؔ مسیح نے اپنے بپتسمہ، صلیب پر موت اور جی اُٹھنے کے ذریعے ہمیں نجات کا فضل عطا کِیا ہے۔ اِس طرح ہمیں نجات کا تحفہ دے کر، یِسُوعؔ نے گناہ کی معافی کو بالکل پورا کِیا۔ اور اب، ایمان سے ہم اِس نجات کے فضل سے ملبوس ہو چکے ہیں، کیونکہ خُداوند نے گناہ سے ہماری نجات کو بالکل پورا کر دیا ہے جو ہمارے اپنے کاموں یا خوبیوں سے کبھی پوری نہیں ہو سکتی تھی۔
بہت سے لوگ اِس بپتسمہ پر ایمان نہیں رکھتے جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیا تھا، بلکہ اِس کے بجائے صرف اُس خون پر ایمان رکھتے ہیں جو اُس نے صلیب پر بہایا تھا اور اپنے اعمال کے ذریعے مقدس بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جیسا کہ یِسُوعؔ نے بنی نوع اِنسان کے تمام گناہوں کو اُٹھالیا جب اُس نے یوحنا اِصطباغی کے ذریعہ بپتسمہ لیا تھا، لوگ اب بھی اِس سچائی پرایمان نہیں رکھتے ہیں۔ متی باب ۳ ہمیں بتاتا ہے کہ سب سے پہلا کام جو یِسُوعؔ نے اپنی عوامی زندگی میں کِیا وہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ذریعہ بپتسمہ لینا تھا۔ یہ وہ ناقابل تردید سچائی ہے جس کی چاروں انجیلوں نے تصدیق کی ہے۔
یِسُوعؔ نے یوحنا اِصطباغی، تمام بنی نوع اِنسان کے نمائندے اور عورتوں سے پیدا ہونے والے سب سے عظیم اِنسان کے ذریعہ بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا، اور پھر بھی بہت سے لوگ ہیں جو اِس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں اور اِس پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ یِسُوعؔ کے بپتسمہ پر یقین کیے بغیر اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اور صرف اُس قیمتی خون کی جو اُس نے صلیب پر بہایا، جوش سے تعریف کرتے ہیں۔ صلیب پر یِسُوعؔ کی موت کے لیے بہت ہمدردی رکھتے ہوئے، وہ اپنے جذبات کو اُبھارتے ہیں، اپنی پرستش میں ہر طرح کاشوروغل مچاتے ہیں، اپناگلاپھاڑکرگاتے ہیں،
قدرت، قدرت، حیرت انگیز کام کرنے کی قدرت ہے۔
برّہ کے خون میں؛
قدرت، قدرت، حیرت انگیز کام کرنے کی قدرت ہے۔
برّہ کے قیمتی خون میں۔“وہ خُدا کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں، اپنے جذبات، جوش اور طاقت سےسرگرم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ جتنا زیادہ ایسا کرتے ہیں، اتنے ہی زیادہ وہ گنہگار ہوتے جاتے ہیں اور اتنے ہی زیادہ وہ منافق ہوتے جاتے ہیں۔
جب یِسُوعؔ مسیح پر ایمان رکھنے کی بات آتی ہے، تو یِسُوعؔ کی دو شاندار خدمات بالکل ضروری ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا، اور دوسری یہ کہ اُس نے ہمارے گناہوں کی تمام مزدوری دُنیا کے گناہوں کو صلیب پر لے جا کر اور اِس پر مصلوب ہو کر ادا کر دی۔ جو کوئی بھی یِسُوعؔ کی اِن دو شاندار خدمات پر مکمل ایمان رکھتا ہے وہ یقینی طور پر راستباز بنایا جا سکتا ہے۔ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب کے اُس کے خون دونوں پرہمارا ایمان، اُس کے نجات کے تحفے کے دو محور، ہمیں خُدا کے گھر میں مضبوطی سے کھڑا کرتےہیں۔ خُدا کے فضل سے، ہم اُس کے حقیقی بے عیب لوگ بنائے گئے ہیں۔ یِسُوعؔ کی طرف سے دی گئی پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے سے، ہم خالص سونے کی طرح ایمان حاصل کرتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے لاتبدیل ہے۔ پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایمان رکھنے سےجوآسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہوتی ہے، ہم وہ مقدس بن جاتے ہیں جنہوں نے گناہ کی کامل معافی کی نجات حاصل کی ہے۔
 
 
تھیالوجی کادَور بمقابلہ پانی اور روح کی خوشخبری کادَور
 
ابتدائی کلیسیائی دَور کو چھوڑ کر، ۳۱۳ ء مسیحی میں روم کے میلان کے فرمان کے اعلان کے بعد سے، مسیحیت صرف صلیب کی خوشخبری پھیلا رہی ہے جو یِسُوعؔ کے بپتسمہ کو چھوڑ دیتی ہے۔ ابتدائی کلیسیائی دَور سے لے کر ۳۱۳ ء مسیحی تک، اِس سے پہلے کہ مسیحیت محض ایک مذہب کے طور پر بگڑ گئی، اِس نے پانی اور روح کی خوشخبری کی بھرپور طریقے سے منادی کی، لیکن اِس کے بعد رومن کیتھولک کلیسیا مغربی دُنیا کے مذہبی دائرے پر حاوی ہوگئی۔ پھر ۱۴ویں صدی کے اوائل سے، ایک ثقافت جس نے ہر چیز کو اِنسان کے بنائے ہوئے خیالات پر مرکوز کِیا اور اِنسانیت کی بحالی کا مطالبہ کِیا اٹلی سے اُبھرنا شروع ہوئی۔ اِسے نشاۃ ثانیہ کہا جاتا تھا۔
سولہویں صدی تک، اٹلی میں شروع ہونے والی اِس اِنسانی ثقافت کا زیر اثر پوری مغربی دُنیا میں پھیلنا شروع ہو گیا، اور اِنسان دوست، اِنسان ساختہ فلسفے کا مطالعہ کرنے والے علماء نے تھیالوجی کا مطالعہ شروع کر دیا۔ بائبل کی اپنی منطق اور نقطہ نظر سے تشریح کرتے ہوئے، اُنہوں نے مختلف مسیحی نظریات کی تعمیر شروع کی۔ لیکن چونکہ وہ سچائی کو نہیں جانتے تھے اِس لیے وہ بائبل کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتےتھے۔ بائبل میں بہت سے مشکل اقتباسات تھے، اور اِس کے نتیجے میں اُنہوں نے اپنے سیکولر علم کو اپنے فلسفیانہ نقطہ نظر کے ساتھ شامل کر کے اپنے مسیحی نظریات کو گھڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ہے کیسے کیلون ازم، آرمینی ازم، بنیاد پرستی، لبرل ازم، نیو تھیالوجی، قدامت پرستی، عقلیت پسندی، اعلیٰ تنقید، تصوف تھیالوجی، مذہبی تکثیریت، لبریشن تھیالوجی، اور یہاں تک کہ خُدا کی موت تھیالوجی نمودار ہوئیں۔
مسیحیت کی تاریخ بہت لمبی لگ سکتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ اتنی لمبی نہیں ہے۔ ابتدائی کلیسیا کے دَور سے لے کر ۳۰۰ سالوں تک، لوگ بائبل کے بارے میں جان سکتے تھے، لیکن اِس کے بعد جلد ہی قرون وسطیٰ کا دَور شروع ہو گیا، مسیحیت کا تاریک دَور۔ اِس دَور میں، بائبل پڑھنا خود ایک جرم تھا جس کی سزا سر قلم کر دیا جانا تھی۔ یہ ۱۷۰۰ء  کی دہائی تک نہیں تھا جب تھیالوجی کی ہوا چلنا شروع ہوئی تھی، اور پھر مسیحیت ۱۸۰۰ء اور ۱۹۰۰ء کی دہائیوں میں پھولتی ہوئی نظر آئی کیونکہ تھیالوجی متحرک اور فعال ہوتی گئی، لیکن اب تک بہت سے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی بنیادپر خُدا پر ایمان رکھتے ہوئے،اپنے عقیدے کے تصوفی تصورات میں مبتلا ہو چکے تھے۔
لیکن کیا یہ سچ ہے؟ جب آپ اِس طرح ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ کے گناہ درحقیقت غائب ہو جاتےہیں؟ آپ ہرروز گناہ کرتے ہیں، آپ اپنے خیالات، اعمال اور کمیوں سے ہر روز گناہ کرتے ہیں۔ پھر کیا آپ صرف اِس خون پر ایمان رکھ کر  اِن گناہوں سے معافی حاصل کر سکتے ہیں جو یِسُوعؔ نے صلیب پر بہایا؟ کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں کو کندھا دیا اور صلیب پر مر گیا یہ سچائی ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اُن کے گناہ صرف صلیب کے خون پر ایمان لا کر اور اُن کی توبہ کی دعائیں ادا کرنےسے معاف ہوچکےہیں۔ کیا آپ کے دلوں اور ضمیروں میں سے آپ کے گناہ توبہ کی ایسی دُعاؤں سے پاک ہوئےتھے؟ یہ ناممکن ہے۔
اگر آپ مسیحی ہیں، تو آپ کو اب اِس سچائی کی نجات کو جاننا اور اِس پر ایمان رکھنا چاہیے، کہ یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر آیا اور یوحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لے کر دُنیا کے تمام گناہوں کو اپنے اوپر اُٹھالیا۔ آپ کے سامنے اِس ثبوت کے باوجود، کیا آپ ابھی تک اِس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں،حتیٰ کہ اِس کو جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور نہ ہی اِس پر ایمان رکھتے  ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ واقعی یِسُوعؔ کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر مانتے ہیں۔ اگریہ بات ہے، تو آپ یِسُوعؔ کا مذاق اُڑانے، اُس کے نام پرکفربکنے اور حقیر جاننے کا گناہ کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، آپ یِسُوعؔ کے نام کی توہین کرنے اور اپنی مرضی سے خُدا کا مذاق اُڑانے کے گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ یِسُوعؔ اِس زمین پر ہمارے گناہوں کو مٹانے کے لیے آیا تھا، اور اُس کے آنے کے اِسی مقصد کے مطابق، اُس نے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لیے بپتسمہ لیا اور دُنیا کے گناہوں کو اُٹھا کر اور مصلوب ہو کر ، اُس نے اُن تمام گناہوں کی سزا  برداشت کو کِیا۔
پھر بھی اِس آسمانی سچائی کے باوجود، بہت سے لوگ اب بھی یِسُوعؔ مسیح کی اِس نجات پر ایمان نہیں رکھتے، اور اِس کے نتیجے میں خُدا کے خلاف ایسا ناقابل معافی گناہ کر رہے ہیں۔ اِس نجات کے منصوبے سے یِسُوعؔ کے بپتسمہ کو نکال کر جو یِسُوعؔ مسیح نے پورا کِیا تھا اور جو بھی مناسب لگتا ہے اِس پر ایمان رکھ کر، وہ کبھی بھی نجات کے فضل سے ملبوس نہیں ہو سکتے۔ پھر بھی اِن تمام سچائیوں کے باوجود بہت سے مسیحی سچائی پر ایمان نہیں رکھتے جیسی کہ یہ ہے، یعنی ،کہ یِسُوعؔ نے اُن کے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے، بلکہ اِس کے بجائے اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں اور اِن من گھڑت سچائیوں پرایمان رکھتے ہیں جن پر وہ ایمان رکھنا چاہتے ہیں۔ آج کل، لوگوں کے دل اُن کے غلط نظریاتی عقائد کی وجہ سے سخت ہوچکےہیں، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ صرف صلیب کے خون پرایمان رکھ کر اُن کے گناہوں کو مٹا دیا جا سکتا ہے۔
لیکن خُدا کی طرف سے منصوبہ کی گئی نجات کا جواب اِس طرح ہے: یِسُوعؔ کے بپتسمہ،صلیب اور اُس کے جی اٹھنے پر ایمان رکھنے سے گناہ کی ہمیشہ کی معافی حاصل کی جاتی ہے۔ اِس کے باوجود ایسے لوگوں کی لاتعداد گنتی میں اضافہ ہوا ہے جو بپتسمہ کو باہر نکالتے ہوئے جو اُس نے نجات کی اِس سچائی سے حاصل کِیاتھا یِسُوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں، مندرجہ ذیل مساوات کو سچ ثابت کرنے کے لیے غلط فہم اور غلط ایمان رکھتے  ہیں:  ”یِسُوعؔ پر ایمان (صلیب اور اُس کا جی اُٹھنا) + توبہ کی دُعائیں + نیک اعمال = پاکیزگی کے ذریعہ حاصل کردہ نجات۔“ اِس طرح ایمان رکھنے والے صرف اپنی باتوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گناہوں کی معافی حاصل کر چکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کے دل گناہ کے ڈھیروں سے بھرے ہوئے ہیں جو ابھی تک حل  نہیں  ہوئے ہیں۔
جو لوگ صرف یِسُوعؔ کی صلیب پر ایمان رکھتے ہیں وہ اصل میں زیادہ گناہوں کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔ آپ اِس سچائی پر ایمان کیوں نہیں رکھتے جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ یِسُوعؔ نے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ لے کر آپ کے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے؛بلکہ آپ اِس کی بجائے ایسے انسانوں کے بنائے ہوئے جھوٹے عقائد پرایمان رکھتے ہیں، حتیٰ کہ آپ یِسُوعؔ پر ایمان رکھنے کا اِقرار کرتے ہیں؟ آپ کو اِس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ کیکر کی لکڑی کے بنے ہوئے خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کی دو چُولیں تھیں، اورکہ اِن کے نیچے چاندی کے دوخانے رکھے گئے تھے تاکہ تختوں کو اپنی جگہ پر تھاما جائے۔ پانی اور روح کی خوشخبری (بپتسمہ جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیا اور صلیب کا خون) ایک مکمل سچائی ہے۔
جب ہم خیمۂ اِجتماع کے صحن کا دروازہ کھولتے ہیں اور صحن میں چلتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے سوختنی قربانی کی قربان گاہ اور پھر پیتل کا حوض نظر آتا ہے۔ سوختنی قربانی کی قربان گاہ کیسی جگہ ہے؟ یہ وہ جگہ ہے جہاں سوختنی قربانیاں گُذرانی جاتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں قربانی کےجانورجو بنی اسرائیل کے گناہوں کو برداشت کرتےہیں اُن کے لیے سزاپاتے ہیں۔ حوض کس قِسم کی جگہ ہے؟ یہ وہ جگہ ہے جہاں بدنوں کو دھویا اور پاک کِیا جاتا ہے۔ یہ، دوسرے لفظوں میں، وہ جگہ ہے جہاں گناہ سے ناپاک دلوں کو دھویا جاتا ہے۔ جب ہم ایمان کے ساتھ اِس عمل سے گزرتے ہیں تب ہی ہم خیمۂ اِجتماع کا پردہ اُٹھاسکتے ہیں اور خُدا کے گھر میں داخل ہو سکتے ہیں نہ کہ اِس سے پہلے ۔
خیمۂ اِجتماع کے دروازے کا پردہ سب آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹےہوئے کتان سے بناہوا تھا۔ یہ باریک بٹے ہوئے کتان اور آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کی کشیدہ کاری سے بُنا گیا تھا۔ خُدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے ہمیں یقیناً اِس سچائی پر ایمان رکھنا  چاہیے۔ ہم خُدا کی بادشاہی میں تبھی داخل ہو سکتے ہیں جب ہم آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہونے والی یِسُوعؔ کی خدمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ یِسُوعؔ اِس زمین پر آیا اور آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کی تکمیل بن گیا۔ آسمانی رنگ کے دھاگے سے مراد بپتسمہ ہے جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیا تھا، اور ارغوانی رنگ کا دھاگہ ہمیں بتاتا ہے کہ یِسُوعؔ مسیح خود خُدا ہے۔ سُرخ رنگ کا دھاگہ ہمیں بتاتا ہے کہ یِسُوعؔ نے ہمارے تمام گناہوں کی سزا خون کے ساتھ برداشت کی جو اُس نے صلیب پر بہایاتھا۔
کیا آپ اب بھی گناہ رکھتےہیں جو آپ کے دل میں برقرار ہے؟ کیا آپ گناہ  رکھتے ہیں، دوسرے لفظوں میں، گناہ آپ کے دلوں کے مرکز میں ہے؟ اگر آپ کے دلوں میں  گناہ ہے حتیٰ کہ آپ اب یِسُوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں، تو واضح طور پر، آپ کے ایمان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آپ یِسُوعؔ کو محض ایک مذہب کے طور پر مانتے ہیں کہ آپ کے ضمیر صاف نہیں ہیں اور آپ پھر بھی گناہ رکھتے ہیں۔ لیکن آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہونے والی سچائی کے ذریعے خُدا پر ایمان رکھ کر، آپ اپنے ضمیروں کو بھی صاف کر سکتے ہیں۔
یہ حقیقت کہ اب آپ یِسُوعؔ کے بارے میں اپنے گمراہ کن علم کی وجہ سے اپنے آپ کےگنہگار ہونے کا احساس کر سکتے ہیں، اپنے آپ میں بہت خوش قسمتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جو لوگ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی گناہ رکھتےہیں وہ تسلیم کریں گے کہ وہ  بچ نہیں سکتے بلکہ اِس گناہ  کی وجہ سےجہنم کے پابند ہو سکتے ہیں، اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو آخرکار وہ روح میں غریب بن سکتے ہیں اور اِس طرح حقیقی نجات کا کلام سُننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ واقعی حتیٰ کہ اب خُدا کی طرف سے گناہ کی معافی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کے دلوں کو یقیناًتیار ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جن کے دل خُدا کے سامنے تیار ہیں وہ اُس کے سامنے اِس طرح اقرار کریں گے:  ”مَیں نے یِسُوعؔ پر ایک طویل عرصے سے ایمان رکھا ہے، لیکن میرے دل میں اب بھی گناہ ہیں۔ کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے، مَیں جہنم میں ڈالےجانےسےبچ نہیں سکتا۔اے خُدا، مَیں گناہ کی معافی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔“  اِس طرح، وہ اپنے آپ کو خُدا کے سامنے مکمل طور پر گنہگار اِنسانوں کے طور پر پہچانتے ہیں۔ وہ لوگ جو خُدا کے کلام کو پہچانتے ہیں، وہ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خُدا کا کلام یقیناً بالکل اِسی طرح پورا ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہتا ہے اِن کے علاوہ اور کوئی نہیں ہیں جن کے دل تیار ہیں۔ ایسے لوگ اِس کلام کو سُنیں گے، کلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے،اور اِس کی تصدیق کریں گے، اور ایسا کرنے سے اُنہیں احساس ہو جائے گا، ”آہ، مَیں نے اِس تمام وقت میں غلطی سے ایمان رکھا تھا۔ اور لاتعداد لوگ اب وہی غلطی کر رہے ہیں۔“  اور پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے سے، اِس سے قطع نظر کہ دوسرے کیا کہیں یا کریں گے، پھر وہ اپنے تمام گناہوں کی یقینی معافی حاصل کریں گے۔
جب مَیں سوچتا ہوں کہ اِس دُنیا میں کتنے لوگ غلط ایمان رکھ  رہے ہیں، اور کتنے غلط راستے پر چل رہے ہیں، میرا دل بہت دُکھتا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، وہ خوشخبری جس کے ساتھ خُداوند نے ہمیں ہمارے گناہوں سے بچایا ہے اُس بپتسمہ سے پوری ہوئی جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیا اور خون جواُس نے صلیب پر بہایا۔ یِسُوعؔ نے اپنے بپتسمہ کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں کواُٹھا لیا، صلیب پر خون کے ساتھ گناہ کی تمام سزا کو برداشت کِیا، اور اِس طرح ہمیں بچاچکاہے۔ لہٰذا، ہمیں یقیناً  واضح طور پر ایمان رکھنا  چاہیے کہ خُدا نے ہمیں وہ ایمان دے کر بچایا ہے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہونے والی سچائی پر یقین رکھتا ہے۔ مَیں اِس حقیقت کے لیے بہت شکر گزار ہوں کہ یِسُوعؔ مسیح نے ذاتی طور پر آپ کو اور مجھے اِس طرح بچایا ہے۔ آپ اور مَیں، جو پانی اور روح کی خوشخبری پرایمان رکھتے ہیں، اِس لیے ہمیشہ سکون سے رہتے ہیں، اور ہمارے دل کبھی نہیں ڈگمگاتے ہیں۔
 
 

جولوگ اپنے گناہوں سے نجات پاچکےہیں اُنہیں یقیناً پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھ کر اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہیے

 
یہ دُنیا شیطانی نظریات سے اتنی بھری ہوئی ہے کہ نئےسِرےسے پیدا ہونے والے دلوں کو بھی آزمایا اور ناپاک کِیا جا سکتا ہے۔ اِسی لیے یِسُوعؔ مسیح نےفرمایا،  ’’ خبردار فرِیسِیوں کے خمِیر اور ہیرودؔیس کے خمِیر سے ہوشیار رہنا‘‘ (مرقس ۸:۱۵)۔ صرف ایک بار سُن کر لوگوں کے دلوں کو ناپاک کرنے والی ایسی کتنی بگڑی ہوئی تعلیمات ہیں ہم اِس کا حساب بھی نہیں لگا سکتے۔ ہمیں یقیناً یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دُنیا کس طرح جنسی بے حیائی سے بھری ہوئی ہے۔ ہم جو ایمان رکھتے ہیں اُنہیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اب کس قِسم کےدَور میں رہ رہے ہیں۔ اِس کے باوجود جب ہم ایسی گنہگار دُنیا میں رہتے ہیں، ہمارے دلوں میں وہ ناقابل تسخیر سچائی ہے کہ خُداوند  ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے نجات دےچکا ہے۔ گواہی کا کلام جو ہماری غیر متغیر نجات کی گواہی دیتا ہے پانی اور روح کی خوشخبری ہے۔ ہمیں اِس سچائی پر ایمان رکھنا چاہیے جو نہ تو دُنیا سے متزلزل ہوتی ہے اور نہ ہی اِس سے کھینچی جاتی ہے۔
یہ دُنیا سچائی کی نہیں ہے۔ بلکہ، یہ شیطان کے جھوٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ تاہم، خُدا نے ہمیں بتایا کہ راستباز دُنیا پر غالب آسکتے ہیں۔ اِس غیر متغیر سچائی کی خوشخبری پر اُن کے ایمان سے ہی راستباز شیطان پر غالب آتے ہیں اور دُنیا پر فتح پاتے ہیں۔ اگرچہ ہم ناکافی ہیں، ہمارے دل، ہمارے خیالات، اور ہمارے جسم اب بھی خُدا کے گھر میں ہیں اور ایمان کے ساتھ نجات کی خوشخبری پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں جس کے ساتھ خُداوند نے ہمیں مکمل طور پر بچایا ہے۔
کیکر کی لکڑی کے تختے، جو خیمۂ اِجتماع کی دیواروں کے ستونوں اور اجزاء دونوں کے طور پر اُٹھائے گئے تھے، سونے سے منڈھے ہوئے تھے۔ اور چونکہ تختے  چاندی کےخانوں پر کھڑے تھے، اِس لیے وہ مضبوطی سے جمے ہوئے تھے اور ڈگمگاتے نہیں تھے۔ اِسی طرح ہم میں سے جو لوگ پانی اور روح سے نئے سرے سے پیدا ہوچکے ہیں اُن کا ایمان بھی ہمیشہ کے لیے غیر متغیر ہے۔ جس طرح کیکر کی لکڑی کے تختوں پر منڈھنےوالےسونے کی پتی نہیں بدلتی اور نہ ہی ہمارا خالص سونے جیسا ایمان کبھی بدلتا ہے، میرے اور آپ کے لیے،کیکر کی لکڑی جو آگ سے جلنے کے سوا کچھ نہیں  کر سکتی تھی، اِس طرح سے مکمل طور پر بچ چکی ہے۔
اِس کی وجہ سے ہم خُداکے بہت شکر گزار ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اِس دُنیا میں گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں، کم از کم ہم راستبازوں کے پاس واقعی بے داغ ضمیر اور ایمان ہے جو ہمارے دلوں میں سونے کی طرح چمکتا ہے۔ ہم سب راستباز ایک ایسی زندگی گزاریں گے جو اِس عقیدے سے دُنیا پر غالب آتی ہے۔ خُداوند کی واپسی کے دن تک، اور اُس کی بادشاہی میں داخل ہونے کے بعد بھی، ہم سب اِس ایمان کی تعریف کریں گے۔ ہم ہمیشہ خُداوند کی ستائش کریں گے جس نے ہمیں بچایا ہے اور اپنے خُدا کی تعریف کریں گے جس نے ہمیں یہ ایمان بخشا ہے۔
ہمارا سچا ایمان کسی بھی حالت میں متزلزل نہیں ہو گا کیونکہ یہ چٹان پر تعمیرکِیاگیا ہے۔ پس، ہم اِس زمین پر رہتے ہوئےاُس دن تک جو کچھ بھی ہو جائے جب تک کہ ہم خُداوند کے حضور کھڑے نہیں ہو جاتے، ہم ایمان سے اپنے دلوں کا دفاع کریں گے۔ یہاں تک کہ اگر اِس دُنیا کی ہر چیز فنا ہو جائے، چاہے یہ دُنیا گناہ میں ڈوب جائے، اور چاہے یہ دُنیا پرانے زمانے کے سدوم اور عمورہ سے بھی بدتر ہو جائے، ہم اِس دُنیا کی پیروی نہیں کریں گے، بلکہ ہم خُدا پر اٹل ایمان رکھیں گے۔ہم اُس کی راستبازی کا تعاقب کریں گے، اور ہم یِسُوعؔ کی دو خدمات (یِسُوعؔ کا بپتسمہ اور صلیب پر اُس کی موت) کی نجات، خُدا کے حقیقی فضل کو پھیلاتے رہیں گے۔
مَیں خُدا کے فضل سے بالکل حیران ہوں، کہ ہم کیسے پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایمان لائےہیں۔ مَیں صرف اِس بات کے لیے لامحدود شکرگزار ہوں کہ ہم نے اِس خوشخبری کو کیسے جانا اور اِس پر ایمان رکھا، اور ہم کیسے خُدا کے اچھے کام کرنےکےلیےآئے ہیں۔ جیسا کہ پانی اور روح کی خوشخبری خُدا کا فضل ہے جو اُس نے ہمیں مفت عطا کِیا ہے، ہم اپنےخُداوند کو جو کچھ دے سکتے ہیں وہ صرف اپنے ایمان کے ساتھ اُس کا شکر یہ ادا کرنا اور اُس کی واپسی کے دن تک اِس خوشخبری کی سچائی کو پھیلانا ہے۔
مَیں خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے ہمیں یہ سچائی بخشی۔