Search

خطبات

مضمون 11: خیمۂ اِجتماع

[11-31] عدل کا سِینہ بند <خروج ۲۸:۱۵-۳۰>

عدل کا سِینہ بند
>خروج ۲۸:۱۵-۳۰>
”اور عدل کا سِینہ بند کِسی ماہِر اُستاد سے بنوانا اور افُود کی طرح سونے اور آسمانی اور ارغوانی اور سُرخ رنگ کے کپڑوں اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان کا بنوانا۔وہ چَوکُھونٹا اور دُہرا ہو۔ اُس کی لمبائی ایک بالِشت اور چَوڑائی بھی ایک ہی بالِشت ہو۔اور چار قطاروں میں اُس پر جواہِر جڑنا۔ پہلی قطار میں یاقوتِ سُرخ اور پُکھراج اور گوہرِ شب چراغ ہو۔دُوسری قطار میں زمُرّد اور نِیلم اور ہِیرا۔تِیسری قطار میں لشم اور یشم اور یاقُوت۔چَوتھی قطار میں فِیروزہ اور سنگِ سُلیمانی اور زبرجد۔ یہ سب سونے کے خانوں میں جڑے جائیں۔یہ جواہر اِسرائیلؔ کے بیٹوں کے ناموں کے مُطابِق شُمار میں بارہ ہوں اور انگشتری کے نقش کی طرح یہ نام جو بارہ قبیلوں کے نام ہوں گے اُن پر کندہ کِئے جائیں۔اور تُو سِینہ بند پر ڈوری کی طرح گُندھی ہُوئی خالِص سونے کی دو زنجیریں لگانا۔اور سِینہ بند کے لِئے سونے کے دو حلقے بنا کر اُن کو سِینہ بند کے دونوں سِروں پر لگانا۔اور سونے کی دونوں گُندھی ہُوئی زنجیروں کو اُن دونوں حلقوں میں جو سِینہ بند کے دونوں سِروں پر ہوں گے لگا دینا۔اور دونوں گُندھی ہُوئی زنجیروں کے باقی دونوں سِروں کو دونوں پتّھروں کے خانوں میں جڑ کر اُن کو افُود کے دونوں مونڈھوں پر سامنے کی طرف لگا دینا۔اور سونے کے اَور دو حلقے بنا کر اُن کو سِینہ بند کے دونوں سِروں کے اُس حاشیہ میں لگانا جو افُود کے اندر کی طرف ہے۔پِھر سونے کے دو حلقے اَور بنا کر اُن کو افُود کے دونوں مونڈھوں کے نِیچے اُس کے اگلے حِصّہ میں لگانا جہاں افُود جوڑا جائے گا تاکہ وہ افُود کے کارِیگری سے بنے ہُوئے پٹکے کے اُوپر رہے۔اور وہ سِینہ بند کو لے کر اُس کے حلقوں کو ایک  نِیلے فِیتے سے باندھ دیں تاکہ یہ سِینہ بند افُود کے کارِیگری سے بنے ہُوئے پٹکے کے اُوپر بھی رہے اور افُود سے بھی الگ نہ ہونے پائے۔اور ہارُونؔ اِسرائیلؔ کے بیٹوں کے نام عدل کے سِینہ بند پر اپنے سِینہ پر پاک مقام میں داخِل ہونے کے وقت خُداوند کے رُوبرُو لگائے رہے تاکہ ہمیشہ اُن کی یادگاری ہُؤا کرے۔اور تُو عدل کے سِینہ بند میں اُورِیمؔ اور تُمیّمؔ کو رکھنا اور جب ہارُونؔ خُداوند کے حضُور جائے تو یہ اُس کے دِل کے اُوپر ہوں۔ یُوں ہارُون ؔبنی اِسرائیل کے فَیصلہ کو اپنے دِل کے اُوپر خُداوند کے رُوبرُو ہمیشہ لِئے رہے گا۔“
 
 
آئیے اب ہم اپنی توجہ اِس سِینہ بند کی طرف مبذول کریں جس کے ساتھ سردار کاہن بنی اسرائیل کے لیے فیصلہ کرتا تھا۔مندرجہ بالا حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ عدل کا سِینہ بند ایک چَوکُھونٹے اور دُہرےکپڑےسے بنایاگیاتھا جس کی لمبائی اور چوڑائی دونوں ہی پیمائش میں ایک بالِشت تھی۔ یہ کپڑا کسی ماہِر اُستادسےسونے، آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے بُن کربنوایا گیا تھا۔ اِس کپڑے پر، بارہ قیمتی پتھر جڑے گئے تھے، کُل چار قطاروں  میں ہر ایک  قطارپر تین پتھر۔ خُدا نے مُوسیٰ سے یہ بھی کہا کہ عدل کے سِینہ بند میں اُورِیمؔ اور تُمیّمؔ کو رکھے۔ اُورِیمؔ اور تُمیّمؔ کا یہاں بالترتیب مطلب ’’روشنی اور کاملیت‘‘ ہے۔
 
 

سردار کاہن کے عدل کا معیار

 
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، متعلقہ معیارات اور قواعد و ضوابط کے ساتھ معاملے پر غور و فکر کرنے کے بعد ہر عدل کِیا جا سکتا ہے۔ پھر، سردار کاہن نے اپنے لوگوں کے لیے کس معیار کی بنیاد پر عدل کِیا؟ اُسے اپنے سینہ بند میں موجود اُورِیمؔ اور تُمیّمؔ کے ذریعے اپنے لوگوں کاعدل کرنا تھا، یعنی، ’’روشنی اور کاملیت‘‘ سے۔بنیادی ایمان جس نے اُسے صحیح طریقے سےعدل کرنےکےقابل بنایا وہ سچائی پر ایمان تھا جو اِن پانچ دھاگوں میں ظاہر ہوتی ہے جن سے عدل کا سِینہ بند بنایا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، یہ اُس ایمان کی بنیاد پر تھا جو سونے، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے بنی سچائی پر ایمان رکھتا تھا جس سے سردار کاہن  تمام بنی اسرائیل کے لیے عدل کِیا کرتاتھا۔
مختلف الفاظ میں، سردار کاہن کا عدل کرنے کا معیار سچائی ہے، جو ’روشنی اور کاملیت‘ ہے، جو سِینہ بند کے لیے استعمال ہونے والے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اِس سچائی پر ایمان رکھنے سے جو پانچ دھاگوں میں ظاہر ہوتی ہے، سردار کاہن اسرائیل کے تمام لوگوں کے لیے اپنے مستند فیصلوں تک پہنچ سکتا تھا؛آیا وہ روحانی طور پر صحیح تھے یا غلط۔
سِینہ بند ہر ایک سردار کاہن کے دل کےاوپررکھاجاتا تھا اور اُورِیمؔ اور تُمیّمؔ کو اُس کے اندر رکھا جاتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سردار کاہن کے دل میں روشنی اور کاملیت کی سچائی اتنی مضبوطی سے قائم تھی کہ وہ ہمیشہ بنی اسرائیل کی رہنمائی کر سکتا تھا اور عدل کر سکتا تھا کہ آیا اُن کا عقیدہ درست تھا یا نہیں، آیااُنہوں نے خُدا کے قربانی کے نظام کےمطابق قربانیاں گُذرانی یا نہیں، اور آیا اُنہوں نے اُس کے احکام پر عمل کِیا یا نہیں۔
آج ہم، خُدا کے شاہی کاہنوں کو بھی اِسی معیار کو تھامنا ہے اور اِس زمانے کے لوگوں کا عدل کرنا ہے۔ ہمیں یقیناًاِسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے کہ اگر لوگ سِینہ بندکے لیے استعمال ہونے والے پانچ دھاگوں میں ظاہر ہونے والی سچائی پر ایمان رکھتےہیں تو وہ خُدا کےحضور دُنیا کا نور بن سکتے ہیں، اور اگر وہ ایمان نہیں رکھتے تو اُن کوسزادی جائے گی۔
کچھ لوگ اِس کلام سے اختلاف کرتے ہوئے یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے بہت سے راستے ہو سکتے ہیں۔ کوہ پیما کہہ سکتے ہیں،  ”آپ نے پچھلی بار سب سے آسان راستہ اختیار کِیا تھا، لیکن مَیں اِس پہاڑ کوسرکرنے کے لیے سب سے مشکل چٹان، مشرقی کنارے کا راستہ اختیار کروں گا۔“ یقیناً، جب کوہ پیمائی کا معاملہ آتا ہے، تو اِس طرح کا متبادل طریقہ بہت ممکن ہے۔ تاہم، جب ہمارے روحانی دائرے کی بات آتی ہے، تو یہ کسی تنازعہ یا سمجھوتہ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ معیار صرف وہی ہے جو خُدا نے قائم کِیا ہے۔ ہمارے لیے خُدا کےحضوردُنیا کا نور بننے کے لیے، ہمارے پاس کئی طریقے نہیں ہیں، بلکہ صرف ایک ہی طریقہ ہے: یہ طریقہ نجات کی چمکتی ہوئی سچائی کو جاننا اور اِس پر ایمان رکھنا ہے جو سونے، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہوتی ہے، جو سِینہ بند اور افُود کا مواد ہیں، اور اِس طرح اپنے گناہوں کی معافی حاصل کریں اور خُدا کے اپنے بچے بن جائیں۔
دُنیا کا نور بننے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے سوائے اِس ایمان کے کہ خُدا نے ہمارے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے اور ہمیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے سے راستباز بنا دیا ہے۔ صرف سردار کاہنوں کے پہنے ہوئے لباس کے لیے استعمال ہونے والے مواد کی سچائی پر ایمان رکھنے سے ہی گنہگار راستباز بن سکتے ہیں اور نامکمل کامل بن سکتے ہیں۔ اِسی طرح، جب ہمارا عدل کِیا جاتا ہے کہ آیا ہم خُدا کے حضورنجات یافتہ ہیں یا نہیں، تو ہمارا پانی اور روح کی خوشخبری کے کلام کی بنیاد پر عدل کِیا جاتا ہے جو سچائی کی چمکتی ہوئی روشنی بن گئی ہے۔
اگر ہم واقعی خُدا کے حضورمناسب طور پر عدل کرنا چاہتے ہیں کہ آیا ہمیں آسمان میں جانا ہے یا جہنم میں، تو ہمیں یقیناً وہ ایمان رکھنا چاہیے جوعدل کا سِینہ بند بنانے کے لیے استعمال ہونے والے  مواد  کو
جانتا اور اِس پر ایمان رکھتا ہے۔ ہمارے لیے دوسروں کو دیکھنے اور یہ جاننے کے قابل ہونے کے لیے کہ آیا وہ پورے دل سے پانی اور روح کی سچائی پر ایمان رکھتے ہیں، سب سے پہلے ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنا چاہیے۔ ہمیں جس چیز کا ادراک ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ سچائی سونے، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہوتی ہے جو ہمیں گناہوں کی معافی کے بارے میں صحیح عدل تک پہنچنے کے قابل بناتی ہے، اور یہی سچائی صحیح عدل کی گواہی دیتی ہے۔ کیا آپ اب یہ سمجھ سکتے ہیں؟
تو پھر کون پہلا شخص ہے جو آج گناہوں کی معافی کے بارے میں صحیح عدل کر سکتا ہے؟ یہ یِسُوعؔ مسیح ہے، آسمان کا ابدی سردار کاہن۔ یِسُوعؔ مسیح نے اپنے بپتسمہ کے ساتھ بنی نوع اِنسان کے گناہوں کو اپنے جسم پر لے کر ہمارے تمام گناہوں کواپنےاوپراُٹھا لیا، اور صلیب پر مر کر اور دوبارہ مُردوں میں سے جی اٹھ کر، وہ ہمیں ہمیشہ کے لیے دُنیا کے گناہوں سے نجات دےچکاہے۔ لہٰذا، جو کوئی بھی اِس سچائی کے مطابق یِسُوعؔ مسیح پر ایمان رکھتا ہے وہ شاہی کاہن بن سکتا ہے اور لوگوں کا صحیح عدل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اب، ہم نئے سرے سے پیدا ہونے والوں کا فرض ہے کہ خُدا کے دیے گئے معیار، پانی اور روح کی خوشخبری کے مطابق غیر نجات یافتہ لوگوں کا عدل کریں۔ اور ہمیں یہ فرض یِسُوعؔ مسیح، اعلیٰ مُنصف کے حضور وفاداری سے ادا کرنا چاہیے۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہم روحانی کاہنوں کے عدل کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ ہمارے خلاف کھڑے ہو کر کہتے ہیں، ”تم خُدا نہیں ہو! تم تو بس میری طرح ایک کمزور انسان ہو ، تم یہ کیسے طے کر سکتے ہو کہ مجھے میرے گناہوں کی معافی مل گئی ہے یا نہیں؟ گنہگاروں کا صحیح عدل صرف خُدا ہی کرتا ہے! تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ تم کو یہ عدل کرنے کی جرات کیسے ہوئی کہ آیا مَیں نجات پاچکاہوں یا نہیں؟ یہ تو خُداہی جانتا ہے۔ کیاتم خُدا ہو؟ کیاتم کو لگتا ہے کہ تم سب سے بہتر ہو؟
لیکن روحانی کاہنوں کے فیصلے بے عیب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اُنہیں خُداوند کی طرف سے ایسا کرنےکاحق سونپا گیا ہے۔ جب خُدا کے کاہن درست اور غلط کا تعین کرتے ہیں، تو  ہمیں یقیناً  اِس  عدل پر  ایمان رکھنا چاہیے، کیونکہ یہ صحیح عدل ہے۔ جیسا کہ یہ ڈاکٹر ہیں جو اپنے مریضوں کی بیماریوں کی تشخیص کر سکتے ہیں، یہ روحانی کاہنوں پر منحصر ہے کہ وہ روحوں کا معائنہ کریں اور یہ تعین کریں کہ آیا وہ اب بھی گنہگارہیں یا وہ راستباز بن گئے ہیں۔
یہ ایمان ہی سے ہے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان پر یقین رکھتا ہے کہ ہم ایسے روحانی کاہن بن سکتے ہیں۔ یہ روحانی کاہن وہ ہیں جن کو اُن کے تمام گناہوں سے معافی مل چکی ہے اور جنہوں نے سچائی کی خوشخبری پر ایمان رکھ کر خُدا کی طرف سے روح القدس حاصل کِیا ہے۔ جو لوگ اِس طرح کاہن بنے ہیں وہ راستباز لوگوں میں سے گنہگاروں کو پہچان سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہونے والی خوشخبری کو سُن کر اور اِس پر ایمان رکھ کر گناہوں کی معافی حاصل کی ہے، اب ہم گنہگاروں کو شفا دینے اور اُنہیں مسیح کی طرف لے جانے کے قابل ہیں۔
 
 
جب لوگ آپ کی کہانت کو للکارتے ہیں تو آپ کو اُن کادلیری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا
 
گنہگار، اپنے خیالات میں،راستبازوں کی طرف سے کیےجانے والے منصفانہ عدل کی طاقت کو کم کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، اِس سےبھی بدتر بات یہ ہے کہ شاید ہم اپنی کہانت کے قائل نہ ہوں حالانکہ ہم پہلے ہی نئے سرے سے پیدا ہو چکے ہیں۔ جب ہم نئے سرے سےپیداہونےوالے دوسروں کا عدل کرتے ہیں، تو ہمارے لیے یہ سوچنا ممکن ہے، ” کیا مَیں کسی بھی طرح سے تکبر تونہیں کر رہا ہوں؟ کیا مَیں یہاں کوئی غلطی تونہیں کر رہا؟‘‘ لیکن یہاں کچھ بھی غلط نہیں ہے، کیونکہ صرف وہی لوگ جو روحانی طور پر خُدا کے کاہن بن چکے ہیں وہ اِس روحانی عدل کو صحیح طریقے سے کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہم نئے سرے سے پیدا ہونے والوں کو اِس کا بہادری سے مقابلہ کرناہوگاجب گنہگار اُن کا عدل کرنے کے ہمارے اختیار کو للکارتے ہیں۔ یِسُوعؔ اپنے شاگردوں کو ایسا کرنےکاحق دےچکا ہے، یہ کہتے ہوئے، ” جِن کے گُناہ تُم بخشو اُن کے بخشے گئے ہیں۔ جِن کے گُناہ تُم قائِم رکھّو اُن کے قائِم رکھے گئے ہیں“ (یوحنا ۲۰:۲۳)۔ جو لوگ روحانی کاہن بن گئے ہیں وہ دوسروں کی خوشخبری کے ساتھ رہنمائی کر سکتے ہیں جس نے اُنہیں گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے۔
پوری دُنیا میں، بہت سارے مقدسین ہیں جنہوں نے ہماری مسیحی کتابوں کی منسٹری  کے  ذریعے
گناہوں کی معافی حاصل کی ہے۔ گناہوں کی اِس معافی کے ساتھ ساتھ، خُدا نے اُنہیں روح القدس کی طاقت بھی دی ہے تاکہ وہ روحانی طور پریہ بھی پہچان سکیں کہ آیا  دوسرےگناہوں کی معافی حاصل کرچکےہیں یا نہیں۔ جو لوگ جانتے ہیں اور اِس پر ایمان رکھتے ہیں کہ سونے، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان اُنہیں کیا بتا رہے ہیں وہ وہی ہیں جو ایمان سے دوسروں کا عدل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اِن کاہنوں کے ذریعے، خُدا لوگوں کو اُن کے گناہوں اور سزا سے بچاچکاہے۔ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے سے ہی ہم روحانی طور پر خُدا کے فرزند بن گئے ہیں۔
خُدا کے بچے بننے کے بعد، ہم روحانی کاہن بن گئے ہیں، اور اِس لیے ہمیں یہ عدل کرنے کا حق ہے کہ کس نے گناہوں کی معافی حاصل کی ہے اور کس نے نہیں کی۔ ہمیں گنہگاروں کو بلا جھجک بتانا چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی طرف جا رہے ہیں اور پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان  رکھ کر اُنہیں اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرنی ہے۔ ہمیں، اپنے ساتھی ایمانداروں کا بھی عدل کرنا چاہیے، جو پہلے ہی پانی اور روح سے نئے سرے سے پیدا ہو چکے ہیں، تاکہ اُنہیں صحیح راہ پر لے جا سکیں۔
آپ کو یقیناًیہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے لیے، جو روحانی کاہن بن گئے ہیں، اِن گنہگاروں کا عدل کرنا غلط ہے جنہوں نے ابھی تک اپنے گناہوں کی معافی حاصل نہیں کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو گنہگار کےطورپرپہچاننا آپ کے لیے تکبر ہے۔ اِس کے برعکس، چونکہ ہم روحانی کاہنوں کے طور پر ہمیشہ اپنے سینے پر عدل کا سِینہ  بند باندھے رہتے ہیں، اِس لیے ہمیں یقیناً اپنے فرائض کو اَور بھی بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ باقی تمام چیزوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ہمیں خُدا کی طرف سے، اِن گنہگاروں کو جہنم میں برباد ہونے کی سزا دینی چاہیے۔ یہ گنہگار پھر روحانی کاہنوں کے عدل کو خُدا کے عدل کے طور پر تسلیم کریں گے، اِس عدل کو قبول کریں گے، گناہ سےدھل جانے کے خُدا کے فضل پر ایمان رکھیں گے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہوتا ہے، اور اِس طرح اپنے تمام گناہوں سے بچ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی عدل ایمان سے کِیا جائے تو یہ درست عدل ہے۔
پھر ہم کس کسوٹی سے یہ تعین کر سکتے ہیں کہ آیا دوسرے گناہوں کی معافی حاصل کر چکےہیں یا نہیں؟ ہم اِس کا تعین اُسی ایمان کی بنیاد پر کر سکتے ہیں جو سونے ، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ اور باریک بٹے ہوئے کتان کےپانچ دھاگوں پر ایمان رکھتا ہے۔ مختلف الفاظ میں، ہم شاہی کاہن پانی اور روح کی خوشخبری کی بنیاد پر دوسروں کا عدل کر سکتے ہیں: یِسُوعؔ مسیح  خُداکےبیٹےنے ہمارے تمام گناہوں کو یوحنا اِصطباغی کے ذریعہ بپتسمہ لےکراپنےاوپراُٹھالیا، صلیب پر مر گیا، دفن ہوا اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور اِس طرح ہمارے تمام گناہوں کو دھو ڈالا اور اُن تمام گناہوں کی سزا کا بوجھ اُٹھالیا۔ جو لوگ اِس سچائی پرایمان رکھتے ہیں وہ وہی ہیں جو گناہوں کی معافی پا چکے ہیں اور جو لوگ اِس طرح کا ایمان نہیں رکھتے وہ گنہگار ہونے کی سزا کے مستحق ہیں۔
راستبازوں کے لیےعدل کا معیار—یعنی، آیا اُنھوں نے روحانی طور پر قابل قدر زندگی گزاری ہے یا نہیں — اِس بات پر بھی مبنی ہے کہ اُنھوں نے پانی اور روح کی خوشخبری کی کتنی اچھی طرح خدمت کی ہے۔ ویسے، تمام فیصلوں کے لیے، یہ سوال کہ آیا کوئی پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں، بنیادی معیار ہے جو سب سے اہم ہے۔ جو کوئی بھی خُدا کے سامنے اِس حقیقی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتا وہ گنہگار رہے گا۔ جو کوئی بھی عہد نامہ قدیم کے چار دھاگوں میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیتا ہے— یعنی ،آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں سے —اُس کا ایمان ہمیشہ کے لیے گناہ سے غیرنجات یافتہ ہی رہے گا، کیونکہ خُدا کی نجات کا تقاضا اِن چاروں دھاگوں پر ایمان ہے۔
آج کے مسیحیوں میں، بہت سارے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ صرف صلیب کے خون پر ایمان رکھ کر نئےسرےسےپیدا ہوئے ہیں۔ اِن مسیحیوں کے ایمان کا عدل کرتے ہوئے جو صرف صلیب کے خون پر ایمان رکھتے ہیں، ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اُن کا ایمان ناکافی ہے، کیونکہ اُن کا ایمان آسمانی دھاگے (یِسُوعؔ کے بپتسمہ) کو چھوڑتے ہوئے بُناگیا تھا۔ کیا یِسُوعؔ بنی نوع اِنسان کے گناہوں کو اُٹھا سکتا تھا جب وہ صلیب پر مر گیا؟ یِسُوعؔ کا مصلوب ہونا، اپنا خون بہانا، اور صلیب پر مرنا ممکن تھا اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس نے پہلے ہی دریائے یردن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ذریعہ بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں کو اپنے اوپراُٹھالیا تھا۔ اگر یِسُوعؔ کو یوحنا نے بپتسمہ نہ دیا ہوتا تو دُنیا کے گناہ اُس پر کیسے منتقل ہو سکتے تھے؟ یہ اِس لیے تھا کہ ہمارے گناہ اُس کے بپتسمہ کے ذریعے یِسُوعؔ مسیح کے بدن پر منتقل ہو گئے تھے کہ مسیح اِس دُنیا کے تمام گناہوں کو برداشت کر سکتا تھا، مصلوب ہو سکتاتھا، اور ہماری نجات کو مکمل کرنے کے لیے مرنے کے لیے اپنا خون بہا سکتا تھا۔
یِسُوعؔ کو مصلوب کِیا گیا تھا کیونکہ اُس نے بنی نوع اِنسان کے گناہوں کو قبول کِیا تھا جب اُس نے یوحنااِصطباغی کے ذریعہ بپتسمہ لیا تھا۔ لیکن اُس کے بپتسمہ کےلیے، وہ ہمارے گناہوں کو کیسے اُٹھا  سکتا  تھا؟
خُدا باپ کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے وہ کس کو صلیب پر لٹکا سکتا تھا؟ اگر یِسُوعؔ مسیح نے پہلے ہی بپتسمہ لے کر ہمارے گناہوں کو قبول نہیں کِیا تھا، دوسرے لفظوں میں، وہ پھر صلیب پر کیسے مر سکتا تھا؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر یِسُوعؔ مسیح کو یوحنا اِصطباغی نے بپتسمہ نہ دیا ہوتا، تو آپ کے تمام گناہ اب بھی آپ کے دل میں برقرار رہتے۔ اگر یِسُوعؔ مسیح کےبدن نے دُنیا کے گناہوں کو قبول نہیں کِیاتھاتو پھر ہماری جگہ صلیب پراُس کے مرنے کی کیا وجہ تھی؟
 
 
سوالات جو پانی اورروح کی خوشخبری سے لاعلمی کی وجہ سے اُٹھتےہیں
 
کچھ لوگ ہیں جو پوچھتے ہیں، ”اگر یہ سچ ہے کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں کواُٹھا لیاتھا، تو اِس کا مطلب ہے کہ یِسُوعؔ اپنےبدن پر گناہ  رکھتاتھا، اور اگر ایسا ہے، تو یہ گنہگار یِسُوعؔ گنہگاروں کانجات دہندہ کیسے بن سکتا ہے؟
یہ ایک مایوس کن سوال ہے جو پانی اور روح کی خوشخبری سے مکمل لاعلمی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ اُس کے بدن پر تھا کہ یِسُوعؔ نے بنی نوع اِنسان کے گناہوں کو اُٹھا لیا جب اُس نے بپتسمہ لیا تھا۔ اُس نے، دوسرے لفظوں میں، دُنیا کے گناہوں کو اپنی روح پر نہیں اُٹھایاتھا۔ بپتسمہ یافتہ یِسُوعؔ کی الٰہی فطرت بالکل پاک رہی۔ اُس نے صرف اپنے بدن میں بپتسمہ لیاتھا، اور اِس لیے اُس نے دُنیا کے گناہوں کومحض اپنے بدن پر اُٹھایاتھا۔ یہ اِس لیے تھا کہ یِسُوعؔ کو یوحنا اِصطباغی نے بپتسمہ دیا تھا کہ وہ صلیب پر چڑھایا جا سکتا تھا اور تمام گناہوں کے لیے مجرم ٹھہرایا جا سکتا تھا، اپنا خون بہاسکتاتھا اور صلیب پر مرسکتا تھا۔ یِسُوعؔ نے بذاتِ خود اِس دُنیا میں کوئی گناہ نہیں کِیاتھا (۲- کرنتھیوں ۵:۲۱)۔ لیکن چونکہ یِسُوعؔ مسیح نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ذریعہ بپتسمہ لے کر دُنیا کے گناہوں کواپنےاوپراُٹھا لیا، دُنیا کے یہ گناہ اُس کے اپنے جسم پر رکھے گئے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یِسُوعؔ مسیح کبھی ہمارا نجات دہندہ نہیں بن سکتا تھا۔
مَیں دراصل ایسے ناسَمجھ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یِسُوعؔ نے صلیب پر دُنیا کے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھایاتھا۔ مَیں آپ سے پھریہ کہتا ہوں: ”یہ کہ یِسُوعؔ صلیب پر مُؤاکیونکہ اُس نے دُنیا کے گناہوں کو
اپنے اوپراُٹھا لیا تھا جب اُس نے دریائے یردن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ لیا تھا۔“  اگر یہ سچ نہیں ہے،تو پھر یِسُوعؔ کے لیے دُنیا کے گناہوں کواپنےاوپر اُٹھانے کا کوئی دوسرا موقع نہ ہوتا۔ اگرچہ یِسُوعؔ تمام گنہگاروں کا قربانی کا برّہ بن گیا، بنیادی طور پر، وہ اپنے دل میں کوئی گناہ نہیں رکھتا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ یِسُوعؔ اپنی پیدائش سے ہی گناہ رکھتا تھا، بلکہ، یوحنا اِصطباغی کے ذریعہ بپتسمہ لے کر، اُس نے دُنیا کے گناہوں کو قبول کِیا جو اُس کے جسم پر منتقل ہوگئے تھے۔ یہ ہے کیسے یِسُوعؔ دُنیا کے تمام گناہوں کے لیے شریعی قربانی بن گیا۔ دوسرے لفظوں میں، کیونکہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر بنی نوع اِنسان کے گناہوں کو اُٹھا لیاتھا، اِس کے بعد اُسے اپنا خون بہانا پڑا،اور صلیب پر مرنا پڑا۔ آخرکار، وہ پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور اِس طرح ہمارا حقیقی نجات دہندہ بن گیا۔ ایسا کرنے سے، اُس نے گناہ کی تمام سزا برداشت کی۔ لہٰذا، پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے والے عقیدےسے، اگر آپ اپنے دل میں اب بھی گناہ رکھتےہیں تو آپ کو یقیناًاپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہونا چاہیے۔
 
 

بدعُنوان مسیحیت کی تاریخ

 
ابتدائی کلیسیائی دَور میں، یہ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب کے خون پر ایمان رکھنے سے تھا کہ پَولُس اور پطرس جیسے رسول اور ابتدائی مقدسین بھی روحانی کاہن بن سکتے تھے اور کام کر سکتے تھے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو، ابتدائی کلیسیائی دَور اور کلیسیائی فادرز کے دَور کے گزرنے کے بعد، پانی اور روح کی خوشخبری کی سچائی بدعُنوان ہونا شروع ہوگئی، اور ۳۱۳ مسیحی میں میلان کے فرمان نے اِس طرح کے زوال پذیر عمل کو تیز کر دیا۔ مجھےیقین ہے کہ آج اِسی بدعُنوانی سے مسیحی گنہگار پروان چڑھے ہیں۔ تب سے، برائے نام مسیحیوں کا ایک بڑا ہجوم پیدا ہوا، اور اُنہوں نےمحض صلیب کے خون پرہی ایمان رکھتے ہوئے گناہوں کی معافی حاصل کرنے کا دعویٰ کِیا۔ تب سے لے کر اب تک، آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہونے والی خوشخبری کی گواہی نہیں دی گئی بلکہ یہ پوشیدہ رہی۔ یہ ایک پریشان کن حقیقت ہے، کہ بہت سارے مسیحی گنہگار نمودارہوئے جو مسیحیت کو صرف اِس دُنیا کا مذہب سمجھتے ہیں۔
جب ہم آج کے مسیحیوں کااُس عقیدے کی بنیاد پر عدل کرتے ہیں جس نے  ہمیں  روحانی  کاہن
بننے کے قابل بنایا ہے، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اُن میں سے بہت سے لوگوں نے اِس نجات کو غلط سمجھا اور غلط ترجمانی کی جو اُنہیں گناہوں کی معافی حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج کی مسیحیت کے تمام فرقوں کے ایمان کا ہر بیان ایک دوسرے سے کافی ملتا جلتا ہے۔ وہ صرف اپنے فرقوں کے ناموں میں ہی مختلف ہیں؛ جب اُن کے عقیدوں کی بات آتی ہے، تو وہ سب سوچتے ہیں کہ وہ محض صلیب کے خون پر ایمان رکھ کر گناہ سے نجات حاصل کرچکےہیں۔ لیکن اُن کے دِل واقعی گناہوں سے معاف نہیں ہوئےہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ پانی اور روح کے بارے میں خُدا کی خوشخبری سے لاعلم رہتے ہیں، تو بھی وہ خود کو اچھے مسیحی سمجھتے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ یہ لوگ یِسُوعؔ کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر مانتےاور صلیب کے خون پرایمان رکھتے ہیں، لیکن وہ اب بھی صرف اپنی توبہ کی دعاؤں میں مبتلا ہیں، کیونکہ وہ ابھی تک اِس سچائی کو نہیں جانتے جو اُنہیں اُن کے تمام گناہوں کو دھونے کے قابل بناتی ہے۔  دوسرے لفظوں میں،وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ پانی اور روح کی خوشخبری کی قدرت سے غافل رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ہم پانی اور روح کی اِس حقیقی خوشخبری کو ایک بار پھر پوری دُنیا کے تمام لوگوں تک پھیلا رہے ہیں۔ چونکہ پوری دُنیا میں لوگ بپتسمہ سے ناواقف ہیں جو یِسُوعؔ نے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے حاصل کِیا تھا، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں یقیناًپانی اور روح کی اِس خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے جو خیمۂ اِجتماع کے مواد کےطور پر استعمال ہونے والےآسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہوتی ہے ۔ ہم سب اِس پوری دُنیا کے لوگوں تک منادی کر رہے ہیں  چونکہ یِسُوعؔ نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے ذریعہ بپتسمہ لے کر دُنیا کے گناہوں کو اٹھایاتھا، اُس نے مصلوب ہو کر اور مرنے کے ذریعے گناہ کی تمام سزا برداشت کی۔ ہم اُن لوگوں کے مقروض ہیں جو پانی اور روح کی خوشخبری کو نہیں جانتے کہ اِس خوشخبری کو اُن تک پہنچا دیں۔ اِس لیے ہم اُن کو یہ حقیقی خوشخبری سُننے کا موقع دینے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں تاکہ وہ ایمان رکھ سکیں۔
کچھ ممالک میں، مسیحی عقیدے کی تاریخ ۱,000 یا حتیٰ کہ ۲,000 سال پرانی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ زیادہ تر مسیحی ابھی تک پانی اور روح کی خوشخبری کے بارے میں واضح فہم نہیں رکھتے ہیں۔ جب ہم خیمۂ اِجتماع میں ظاہر ہونے والی خوشخبری کی سچائی کی بنیاد پر اُن کاعدل کرتے ہیں، تو بہت سےلوگ ایسے ہیں جنہیں یِسُوعؔ کو دوبارہ نجات دہندہ کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ مَیں یہاں جو بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ چاہے وہ یِسُوعؔ پر کتنےہی عرصے سے ایمان رکھتے ہوں، اگر وہ اب تک گناہوں کی معافی حاصل نہیں کرچکےہیں، تو ہمیں اُن کی دوبارہ یِسُوعؔ پر صحیح طور پر ایمان رکھنے کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ ہمیں اُنہیں پانی اور روح کی خوشخبری فوری طور پر سکھانی ہوگی۔ پَولُس رسول بھی ہمارے جیسا ہی ذہن رکھتا تھا،وہ کہتاہے، ” اگر خُوشخبری سُناؤں تو میرا کُچھ فخر نہیں کیونکہ یہ تو میرے لِئے ضرُوری بات ہے بلکہ مُجھ پر افسوس ہے اگر خُوشخبری نہ سُناؤں“(۱- کرنتھیوں ۹:۱۶)۔
 
 

یِسُوعؔ خُدا ہے جو تمام گنہگاروں کو بچانے کے لیے اِنسانی جسم میں آیا

 
کچھ لوگ، اگرچہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ یِسُوعؔ خُدا کا بیٹا اور اُن کا نجات دہندہ ہے، لیکن یہ نہیں مانتے کہ یِسُوعؔ خُدا ہے۔ وہ ارغوانی رنگ کے دھاگے کی مسیح کی خدمت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ درحقیقت تباہ ہو جائیں گے، کیونکہ اُن کے دلوں میں وہ ایمان نہیں ہے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر ہونے والی پوری سچائی پر ایمان رکھتا ہے اور اِس وجہ سے گناہوں کی معافی نہیں حاصل کرچکےہیں۔ جو لوگ اپنے دلوں میں یہ ایمان نہیں رکھتے کہ خُداوند نے اُن کے تمام گناہ مٹا دیے ہیں اُن کے دلوں میں روح القدس نہیں ہے کیونکہ اُن کے پاس وہ کلام نہیں ہے جو اُن کے گناہوں کے دھونے کی گواہی دیتا ہے۔
جب ہم یِسُوعؔ کو اپنے”خُداوند“ کے طور پر پکارتے ہیں، تو یہاں لفظ”خُداوند“ کا مطلب اُستادہے، جو اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یِسُوعؔ خود خُدا ہے۔ یہ خُدا کا بیٹا سچا خُدا بھی ہے۔ اِس کی وضاحت کے لیے، مَیں اکثر مندرجہ ذیل استعارہ استعمال کرتا ہوں۔ جب اِنسان حاملہ ہوتا ہے تو وہ دوسرے اِنسان کو جنم دیتا ہے۔ جب کتے جنم دیتے ہیں تو وہ کتے کوپیداکرتے ہیں۔ پرندے پرندوں کو جنم دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جس طرح مختلف قِسمیں اور انواع ہیں، اِسی طرح خُدا باپ نے اِکلوتے بیٹے کو جنم دیا ہے، اور وہ خُدا بھی ہے (زبور ۲:۷)۔ وہ دراصل اپنے جوہر میں خود خُدا کے برابر ہے (فلپیوں ۲:۶)، لیکن اُس نے خود کو خالی کر دیا اور ہم اِنسانوں کی طرح بن گیا۔ ہمیں گناہ سے بچانے کے لیے، وہ اِس زمین پر آیا، بپتسمہ لیا، صلیب پر مر گیا، دوبارہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور، ہمارے حقیقی نجات دہندہ کے طور پر، اِس طرح ہمیں نجات کا حقیقی ایمان دیا ہے۔
تاہم، بہت سے لوگ ہیں جو انکار کرتے ہیں کہ یِسُوعؔ خُدا ہے۔ سکولوں میں، وہ سرعام سکھاتے ہیں کہ یِسُوعؔ اُن چار بزرگوں میں سے ایک ہے جو قدیم زمانے میں ظاہر ہوئے تھے۔ اِس طرح کے تصور کی شروعات حتیٰ کہ کلیسیاکےفادرزسے ہوتی ہے۔ اگرچہ اُنہوں نے سچی خوشخبری اپنے پیشرو ایمان والوں سے سُنی، بلکہ اُن میں سے کچھ کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ اُنہوں نے شہادت قبول کر کے اپنے ایمان کا اقرار کِیا، لیکن دوسروں نے یِسُوعؔ کی الوہیت کا انکار کِیا۔ کچھ کلیسیاکے فادروں نےحتیٰ کہ کتابیں بھی لکھیں جن میں یہ دعویٰ کِیا گیا کہ یِسُوعؔ خُدا کا بیٹا ہے لیکن خود خُدا نہیں ہے۔
حال ہی میں، بہت سے ماہرینِ الہٰیات نے مذہبی تکثیریت کی حمایت شروع کر دی ہے۔ اُن کے دعوےٰ یہ ہیں کہ لوگ گناہ سے بچ سکتے ہیں اور آسمان میں داخل ہو سکتے ہیں چاہے وہ مسیحیت کے علاوہ مختلف مذاہب کو مانتے ہوں۔ کیتھولک مذہب پہلا ہے جس نے عوامی طور پر اِس طرح کے عقیدے کا اعلان کِیا۔ اِن برائے نام مسیحیوں کےاِس طرح کے موقف کی حمایت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود یہ ایمان نہیں رکھتے کہ یِسُوعؔ خود خُدا اور خالق ہے۔ وہ اُس پر ایمان رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ کلام کہتا ہے، لیکن وہ اِس سچے ایمان کو ایسی جھوٹی تعلیم پر استوار نہیں کر سکتے۔ وہ احمق آدمی ہیں جنہوں نے اپنے گھر ریت پر بنائےہیں (متی ۷:۲۶)۔ وہ دوسرے مذاہب سے سب کچھ سیکھنا پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ مغربی گرجا گھر ہفتے میں ایک بار بدھ مت کے مراقبہ کے پروگراموں کی مشق کر رہے ہیں۔ اِنسانی نکتہ نظر سے، ایسا پروگرام خوبصورت اور زیادہ ترقی پسند لگتا ہے۔ لیکن جو کوئی یہ ایمان نہیں رکھتا کہ یِسُوعؔ بذاتِ خود خُدا ہے وہ گناہ سے نہیں بچ سکتا۔
آپ کیسے ہیں؟ آپ کیسے ایمان رکھتے ہیں؟ پیدائش ۱: ۱-۳ بیان کرتا ہے،  ” خُدا نے اِبتدا میں زمِین و آسمان کو پَیدا کِیا۔اور زمِین وِیران اور سُنسان تھی اور گہراؤ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خُدا کی رُوح پانی کی سطح پر جُنبِش کرتی تھی۔اور خُدا نے کہا کہ رَوشنی ہو جا اور رَوشنی ہو گئی۔ “ خُدا نے اِبتدامیں اپنے کلام کے ذریعے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کِیا۔ کلام اِبتداسے موجود ہے اور یہ کلام خود خُدا ہے۔ لہٰذا، دُنیا یِسُوعؔ مسیح، کلام کے مجسم ہونےکے ذریعے بنی تھی۔ (۱- یوحنا ۱:۱، یوحنا ۱:۱۰)۔ اِس کا مطلب ہے کہ یِسُوعؔ مسیح کوئی اَور نہیں بلکہ خود خُدا، کلام کا خُدا ہے۔ یِسُوعؔ مسیح  خالق ہے جس نے اِس کائنات کو بنایا اور نجات دہندہ جو ہمیں بچانے کے لیے اِس زمین پر آیاتھا۔ ہمارے لیے صرف یہ ایمان رکھنادرست ہے کہ یہ یِسُوعؔ مسیح ہی خُدا ہے جو آسمان کے جلال کے تخت کو چھوڑ کر ذاتی طور پر ایک اِنسان کے جسم میں اِس زمین پر آیا۔
اپنےخادمین کے ذریعے، خُدا نے خود مسیحا کے آنے کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی، اور اِن پیشین گوئیوں کے مطابق نجات دہندہ کنواری مریم کے بدن سے پیدا ہوا اور ایک اِنسان کے جسم میں مجسم ہوا۔ یعنی ،جو ایک اِنسانی جسم کے پیٹ میں پڑااور پیدا ہوا تھاوہ خود خُدا ہے۔ اور جب وہ ۳۰ سال کا ہوا، آسمان کے سردار کاہن کے طور پر، اُس نے بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہوں اور پوری نوع اِنسانی کے گناہوں کو اپنے جسم پر اُٹھا لیا۔ اِس کے بعد وہ صلیب پر مر گیا، مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور اِس طرح اُس نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے مکمل طور پر بچایا۔ یِسُوعؔ، دوسرے لفظوں میں، ہمارا حقیقی اور ابدی نجات دہندہ بن گیا ہے۔
اپنے بنیادی جوہر میں، یِسُوعؔ خود خُدا ہے جو خُدا باپ کے برابر ہے۔ ہمارے لیے، یہ یِسُوعؔ جو بنیادی طور پر خُدا باپ کے برابر ہے وہی خُدا ہے۔ یِسُوعؔ مسیح کا باپ بھی ہمارے لیے خُدا ہے، اور خود یِسُوعؔ مسیح بھی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ دُنیا اُس کے وسیلے سے بنائی گئی تھی، اور اُس کے ذریعے ہی ہم اِنسان کےطورپرپیداہوئے تھے۔ خُدا نے پیدائش ۱:۲۶ میں کہا، ’’ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانِند بنائیں ۔“ جب خُدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر بنایا تو یِسُوعؔ مسیح وہاں موجود تھا۔ وہی ہے جس نے ہمیں بنایا۔ وہی ہے جس نے ہمیں بنایا اوروہی ہےجس نے ہمیں گناہ سے بچایا۔ یِسُوعؔ مسیح جو ہمیں بچانے کے لیے آیا وہ ہمارا حقیقی نجات دہندہ ہے۔ کیونکہ یِسُوعؔ مسیح نے ہمیں نجات دی ہے، اور چونکہ وہ بذاتِ خود خُدا بھی ہے، ہم اُسے اپنی نجات کا خُداوند مانتے ہیں۔ اِس طرح، آپ کو اور مجھے اب اپنی اُلجھنوں میں نہیں بھٹکنا چاہیے، بلکہ اپنے دلوں میں ہمیں یقیناًخُداوند خُدا پر ایمان رکھنا چاہیے جو پانی اور روح کی خوشخبری کےذریعےنجات دہندہ کے طور پر آیا۔
ایسے لوگ  بھی ہیں جو اِس بات پر اصرار کرتے رہتے ہیں کہ وہ خُدا کے بچے ہیں یہاں تک کہ اُن کے دل گناہ سے بھرے رہتے ہیں۔ کیا وہ واقعی خُدا کے لوگ ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ جب اُن کے دلوں میں گناہ ہو؟ کیا وہ آسمان میں جا سکتے ہیں تب بھی جب اُن کے دل گنہگار رہیں؟ ہرگز نہیں! اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مسیحی ہیں یا نہیں؛ اگر اُنہوں نے پانی اور روح کی خوشخبری سے ناواقفیت کی وجہ سے گناہوں کی معافی حاصل نہیں کی ہے، تو اُن میں سے کوئی بھی آسمان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی اِس پوری دُنیا میں مسیحی برادریوں میں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اِس قِسم کا ایمان رکھتے ہیں۔
پھر ایسے لوگوں تک پانی اور روح کی صحیح اور سچی خوشخبری کس کو پہنچانی چاہیے؟ ہمیں — یعنی، آپکو اور مجھے — اُن کے لیے درست عدل کرنا چاہیے اور اُنھیں پانی اور روح کی خوشخبری کی سچائی کی منادی کرنی چاہیے۔ خیمۂ اِجتماع میں ظاہر ہونے والی خوشخبری اِس قِسم کی سچائی نہیں ہے جس کی صرف ایک یا دو بار منادی کی جائے اور پھر مکمل طور پر ترک کر دی جائے۔ یہ حقیقی نجات کی سچائی ہے جسے ہمارے خُداوندکے واپس آنے تک پھیلاتے رہنا چاہیے۔
کیا آپ پانی اور روح کی اِس خوشخبری کو جانتے ہیں جو آپ کو گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے؟ اگر لوگ گناہ رکھتےہیں تو وہ خُدا کے فرزند نہیں ہیں۔ اُنہیں یقیناً ایمان رکھنا چاہیے جو نجات کی خوشخبری کی سچائی پریقین رکھتا ہے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہوتی ہے جو خیمۂ اِجتماع کے لیے اِس کے مواد کے طور پر استعمال ہوتےہیں۔ ہمیں  یقیناًپانی اور روح کی خوشخبری کو دُنیا کے اختتام تک پھیلانا چاہیے۔ کیا ہم پانی اور روح کی خوشخبری سُنانے سے بہت شرماتےہیں؟ پرانے دنوں میں، جب خُدا نے اپنے خادمین سے کہا، ”باہر جاؤ اور نبوّت کرتے رہو“، تب وہ ایسا کرتے رہے، اور جب خُدا نے یسعیاہ سے کہا، ”برہنہ ہو کر نبوّت کرے“، تو وہ پِھرا اور برہنہ ہو کر نبوّت کی (یسعیاہ ۲۰:۲-۵)۔ صرف جب ہم پانی اور روح کی اِس خوشخبری کی منادی تمام لوگوں کےسامنے کرتے ہیں جیسا کہ یہ خیمۂ اِجتماع میں ظاہر ہوتی ہے تب ہی وہ خُدا کے غضب سے بچ سکتے ہیں۔ یہ ہے کیوں ہمیں  یقیناً خوشخبری پھیلاتے رہنا چاہیے۔
آپ کیسے ہیں؟ کیا آپ کے دل حقیقت میں ایمان کا کلام رکھتےہیں جو آپ کو حقیقی نجات دلاتا ہے؟ جب دُنیا بھر کے لوگوں کے پاس گناہوں کی معافی کا کلام نہیں ہے اور پھر بھی وہ شیطان سے تعلق رکھتے ہیں، تو آپ کیسے خاموش بیٹھ سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے؟ آپ محض بیکار نہیں بیٹھ سکتے۔ پوری دُنیا میں ہمارے بہت سے شراکت دار ہیں۔ وہ واضح طور پر گناہوں کی معافی کی خوشخبری، پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ نے ہمارے سامنے اعتراف کِیا ہے کہ جب اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کو پانی اور روح کی خوشخبری سنائی تو اُنہیں ستایا گیا۔ اُنہوں نے پانی اور روح کی خوشخبری کے مخالفین کے خلاف یہ کہتے ہوئے بہادری کا مظاہرہ کِیا ، ’’تم خُدا کے لوگ نہیں ہو کیونکہ تمہارے دلوں میں اب بھی گناہ ہے۔تم پانی اور روح کی خوشخبری پر اپنی بے اعتقاد ی اور اپنے گندے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی طرف جا رہے ہو۔ اب مَیں تمہیں  ’بھائی‘ نہیں کہہ سکتا، حالانکہ تم مجھے  ’ بھائی‘  کہتے ہو، کیونکہ مَیں اب  تم جیسا گنہگار نہیں ہوں۔
ہم نے کبھی بھی اُن کی رہنمائی نہیں کی کہ وہ اِس طرح سے کام کریں، بلکہ روح القدس اُن کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ کیا کریں۔ آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ آپ کے دلوں میں پانی اور روح کی خوشخبری ہے جو وہ معیار بناتی ہے جس کی بنیاد پر آپ دوسروں کاعدل کرنے کے قابل  ہوتےہیں۔ دوسروں کے گناہوں کی معافی کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی یہ صلاحیت آپ کو حاصل ہوئی ہے کیونکہ آپ سچائی کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں جو خاص طور پر خیمۂ اِجتماع میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہمیں  یقیناًسچائی پر ایمان کے ساتھ خُدا کے سامنے کھڑا ہونا چاہئے کہ آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے اِن تین دھاگوں کے ساتھ، خُداوند نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچایا ہے اور ہمیں راستباز بنایا ہے۔
 
 
آئیے نجات کی درست پیمائش کرنے والے عصا کا استعمال کریں
 
ہم خُدا کے کلام کو ’کینن‘ کہتے ہیں۔ لفظ ’کینن‘ عبرانی اصطلاح میں qaneh اور یونانی اصطلاح میں kanon سے ماخوذ ہے، یہ دونوں ایک ناپنے والی چھڑی کا حوالہ دیتے ہیں۔ جب ہمیں کسی چیز کی پیمائش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو ہمیں اِسے صحیح طریقے سے ماپنے کے لیے ایک رولر یا ماپنے والی چھڑی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اِس طرح، جب ہمیں کسی کی روحانی حیثیت معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی، یہ کہ کوئی شخص نئےسرےسے پیدا ہوا ہے یا نہیں، تو ہمیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان کی ناپنے والی چھڑی سے اِس شخص کی تحقیق کرنی ہوگی۔ جس طرح ایک درزی اپنے رولر کو اپنے گاہکوں کے سائز کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، ہمیں  یقیناًیہ تحقیق کرنی چاہیے کہ آیا وہ شخص واقعی گناہ سے نجات یافتہ ہے یا نہیں۔ ایسا کرنے کا طریقہ آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے ظاہر ہونے والی سچائی کے ساتھ ہے۔ خُدا کے اِس کلام کی بنیاد پر، دوسرے لفظوں میں، ہمیں اُس شخص کے ایمان کے ہر پہلو کو منتخب کرنا چاہیے اور واضح طور پر یہ فرق کرنا چاہیے کہ کیا اِس کے معیار سے نیچے ہے اور کیا اِس سے زیادہ ہے۔
خاص طور پر، ہمیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے، یعنی پانی اور روح کی خوشخبری کی پیمائش کرنے والی چھڑی سے اپنے ایمان کا اچھی طرح سے معائنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی صرف ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کے یِسُوعؔ پر ایمان رکھتا ہے، تو اُن کی نجات اُس کی کلیسیاکے شاہی کاہنوں کی طرح خُداسے منظور نہیں ہو سکتی۔ جو کوئی اپنے گناہوں سے معافی حاصل کرنا چاہتا ہے اُسے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے میں ظاہر ہونے والی نجات کی پوری سچائی پر ایمان رکھنا چاہیے۔ ہم سب کو ایمان رکھنا چاہیے کہ یِسُوعؔ تمام نوع اِنسانی کو گناہ سے بچانے کے لیے اِس زمین پر آیا، بپتسمہ لے کر ہمارے تمام گناہ اُٹھا لیے، صلیب پر مر گیا، دوبارہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور اِس طرح ہمارا حقیقی نجات دہندہ بن گیا ہے۔ ہم سب کے پاس درست عدل کا یہ معیار ہونا چاہیے۔ یہ خُدا کے کلام پر مبنی ہے تاکہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ لوگ گنہگار ہیں یا راستباز۔ ہم اپنے علم اور جذبات کی بنیاد پربےساختہ انداز میں ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ کام روحانی کاہنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے خطاکی قربانی دینے کے اپنے فرض کو پورا کریں۔
اب اِس دَور میں،آپ کو اور مجھے دُنیا کے تمام لوگوں کا ایسے درست معیار کے ساتھ عدل کرناچاہیے۔ ایک ہی معیار سب پر ، ہمارے بچوں، بیویوں، شوہروں، والدین، سسرالیوں اوربچوں کے بچوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمیں یقیناً خُدا کے کلام سے دوسروں کے ایمان کو پہچاننا چاہیے۔ جو لوگ کاہن بن چکے ہیں اُنہیں یقیناً ہر ایک کے دل میں عدل کی پیمائش کی چھڑی رکھنی چاہیے۔ ” کیا آپ یِسُوعؔ کے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان کی سچائی کو جانتے اور مانتے ہیں؟ اگر آپ اِس طرح ایمان رکھتے ہیں، تب آپ  نجات یافتہ ہیں، لیکن اگر نہیں، تو آپ  نجات  یافتہ نہیں ہیں۔“ اِس طرح ایک واضح عدل پیش کرنا ہمارے لئے صحیح کام ہے۔
اگر اِس سے پہلے سردار کاہن نےیہی کِیا تھا، تو پھرآپ اور مَیں جو آج کے روحانی کاہن بن چکےہیں، انہیں بھی یہ کام بغیر کسی ناکامی کے کرنا چاہیے۔ اگر ہم وہ نہیں کرتے جو ہمیں اُس کے کاہنوں کے طور پر کرنا ہے، تو ہم کبھی بھی خُدا کی طرف سے ملامت سے بچ نہیں سکتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، ”یہ کسی کو بشارت دینے کا طریقہ نہیں ہے۔ اِس طرح آپ بشارت دیتے ہیں! اگر  ہم  سب  آپ  کی طرح لوگوں کو
بشارت دیتے تو کون کبھی یِسُوعؔ پر ایمان لائےگا؟“
تھیالوجی میں، ایک تربیتی کورس ہے جسے ’دی آرٹ آف ایوینجیلزم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بشارت کے لیے رہنمائی کرنےکاطریقہ فراہم کرتا ہے۔ ایک مرتبہ، اِس شعبے میں ہر مبلغ کے لبوں پر اصطلاح ’دوستانہ بشارت‘ کافقرہ تھا۔ اِس کے پیروکار اب بھی سکھاتے ہیں کہ جب ہم لوگوں کو بشارت دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں پہلے اُن سے دوستی کرنی چاہیے اور پھر آہستہ آہستہ اُنھیں گرجا گھر کی طرف لے جانا چاہیے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب وہ شخص اُنکی بشارتی  کوششوں سے یِسُوعؔ پر ایمان رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ اُس شخص کو یِسُوعؔ کو حاصل کرنے کی نام نہاد دُعا دہرانے پر مجبور کرتے ہیں، تاکہ مسیح اُس شخص کے دل میں آجائے اور وہ نجات پا جائے۔
لیکن اِس نکتہ نظر کا حتمی نتیجہ کیا ہے؟ کیا پھر اِس طرح کےنئے مذہب تبدیل کرنے والوں کے دلوں سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں؟ ایسی بات نہیں ہے۔وہ گرجاگھرجاتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی گناہ رکھتےہیں — دوسرے لفظوں میں، نئے مذہب تبدیل کرنے والے محض مسیحیت کے دوسرے مذہبی پیشہ ور  بن چکے ہیں۔ اِس طرح ایسے لوگوں کو یِسُوعؔ پر ایمان رکھوانےکے بعد، وہ پھر اُن سے دسواں حصہ یا شکرگزاری کی قربانیاں دینےپرمجبورکرتےہیں۔ آخر میں، اگرچہ وہ مسیحی بن گئے ہیں،لیکن وہ خُدا کےعدل سے نہیں بھاگ سکتے، کیونکہ وہ اب بھی گناہ  رکھتےہیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ خوشخبری پھیلانے کا ہمارا طریقہ غلط ہے، یہ کہتے ہوئے،  ”آپ لوگوں سے کیسے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ گناہ رکھتےہیں یا نہیں جب آپ ابھی اُن سے ملے ہی ہیں؟ آپ نجات کے مسئلے کو اتنی جلدی کیسے اُٹھا سکتے ہیں، جب کہ آپ اُنہیں بمشکل جانتےہی ہیں، اِس بارے میں اپنا عدل کرتے ہوئے کہ آیاوہ نجات یافتہ ہیں یا نہیں؟“ یقیناً، ہمیں اُن کی باتوں پر کچھ غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جس روح کو ہم بچانا چاہتے ہیں وہ ایک ایسی شخصیت ہے جسے ہمارے ہونٹوں سے آسانی سے تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ لیکن جلد یا بدیر، ہمیں یقیناًنجات کی خوشخبری اِن غیرایمانداروں کو سنانی چاہیے جن کےساتھ ہم رابطے میں ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم اُن کے کتنے ہی قریبی دوست ہیں، چونکہ ہمیں جلد یا بدیر اُن کو خوشخبری سنانی چاہیے، ہم ایمان کے ساتھ خوشخبری کی منادی کرنے کا موقع دینے میں ناکام نہیں ہو سکتے۔ کیوں؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اُنہیں اِس سچائی کے بارے میں آخر تک نہیں بتائیں گے، تو ہم خوشخبری کو صحیح طریقے سے نہیں پھیلا رہے ہوں گے۔
لہٰذا، ہمیں تمام لوگوں سے پوچھنا چاہیے، خواہ بشارت کے لیے ہماری گفتگو کے آغاز میں یا آخر میں، ’’ کیا آپ اپنے دل میں گناہ رکھتےہیں؟‘‘ اگر جواب ہاں میں ہے، تو ہمیں اُن کو پانی اور روح کی خوشخبری سنانی چاہیے۔ بلاشبہ، ہماری بظاہر جارحیت کی وجہ سے ہمیں اُن کی طرف سے سرزنش کی جا سکتی ہے۔ لیکن چونکہ ہم آخر کار روحانی کاہن ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارا سنجیدہ فرض ہے کہ ہم پانی اور روح کی خوشخبری کا نرسنگا تمام لوگوں کے لیے واضح طور پر بجائیں۔
 
 

ایک خُداوند، ایک بپتسمہ، اور ایک خُدا

 
ہم اپنے تمام گناہوں سے معافی حاصل کرچکےہیں، اور ہماری زندگی کا مقصد پوری دُنیا میں خوشخبری پھیلانا ہے۔ جیسا کہ ہمیں مبشرین کے وہی فرائض سونپے گئے ہیں جو پانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کرتے ہیں، ہم مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ ہم ایک ہی خُدا پر ایمان رکھتے ہیں، ہم ایک جیسی ابدی زندگی حاصل کرچکےہیں، اور ہم ایک جیسی شان سے لطف اندوز ہوں گے۔ ہم سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ہر ایک اپنی اپنی شخصیتوں اور کرداروں کے ساتھ ہے، لیکن جس وجہ سے ہم اپنے آپ کو ایک دوسرے سے الگ کر لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی صرف خُدا کے لیے گزاریں۔
خُدا نے اُن لوگوں کے دلوں کےاوپرعدل کا سِینہ  بندباندھاہےجو آج کے کاہن بن گئے ہیں۔ اور سِینہ بند کو ”اُس کے حلقوں کو ایک  نِیلے فِیتے سے باندھ دیں تاکہ یہ سِینہ بند افُود کے کارِیگری سے بنے ہُوئے پٹکے کے اُوپر بھی رہے اور افُود سے بھی الگ نہ ہونے پائے “ (خروج ۲۸:۲۸)۔ یہ جملہ ایک بار پھر اِس بات پر زور دیتا ہے کہ یِسُوعؔ کا بپتسمہ ہمارے ہرعدل کرنے میں کتنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا، پَولُس رسول نے بھی یِسُوعؔ کے بپتسمہ کی اہمیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ” ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی رُوح۔ چُنانچہ تُمہیں جو بُلائے گئے تھے اپنے بُلائے جانے سے اُمّید بھی
ایک ہی ہے۔ایک ہی خُداوند ہے۔ ایک ہی اِیمان۔ ایک ہی بپتِسمہ“ (افسیوں ۴:۴-۵)۔
ہم پر یہ عدل کرنے کی ذمہ داری ہے کہ آیا لوگوں کی روحیں نجات یافتہ ہیں یا نہیں  اِس  بنیاد  پر
کہ آیا وہ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے ابھی گناہوں کی معافی حاصل کرنی ہے، ہمیں یقیناًاُنہیں خوشخبری سنانی چاہیے، اور جن لوگوں نے گناہوں کی معافی حاصل کر لی ہے، ہمیں یقیناًاُن کو پہچان دینی چاہیے اور اُن کے ایمان میں بڑھنے میں  اُن کی مدد کرنی چاہیے۔ جب ہم گناہوں سے معافی پا چکے ہیں، تو کیا ہمارے لیے روحانی طور پر عدل کا سِینہ بندباندھنا درست ہے یا نہیں؟ مختلف الفاظ میں، کیا ہمارے لیے کسی پر نجات کاصحیح عدل کرنےسے بھاگنا درست ہے؟ یہ درست نہیں ہے۔ ہمیں یقیناًپانی اور روح کی خوشخبری کو پوری دُنیا میں ہر اُس شخص تک پھیلانا چاہیے جو ابھی تک نجات یافتہ نہیں ہواہے۔
 
 
پھر، کیا ہم اپنے جسم میں کامل ہیں؟
 
جب ہم گنہگاروں کاعدل کرتے ہیں، تو یہ اِن کے اعمال نہیں ہیں جن کا ہم عدل کر رہے ہیں۔ بلکہ،یہ اِس سچی خوشخبری اور خُدا کی راستبازی کی روشنی سے ہےکہ ہم اُن کو پہچانتے ہیں۔ اُن کے لیے حقیقی روشنی کیا ہے؟ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھ کر خُدا کے فرزند بننا اُن کے لیے روشنی ہے۔ خُدا کے بچے اِس دُنیا کے لیے روشنی ہیں۔ کیا پھر اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ گناہ سے مکمل طور پر معاف ہو چکے ہیں وہ اپنے اعمال میں کامل ہیں؟ اُن کے دلوں میں، بلاشبہ، وہ کامل ہیں۔لیکن اُن کے جسم میں، وہ بالکل ناکافی ہیں۔
اپنے جسم میں، ہم سب خود غرض،بدکار، ناکافی اور کمزور ہیں، لیکن خُدا کے نزدیک ہم اُس کے کامل لوگ ہیں۔ کیا وہ لوگ جن کے اعمال ناکافی ہیں لیکن جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں خُدا کے فرزند ہیں یا نہیں؟ ہم جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں خُدا کے فرزند ہیں جن کی نجات روحانی طور پر کامل ہے۔ دوسرے لفظوں میں،یہ اُن لوگوں کے اعمال نہیں جنہوں نے آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے پر ایمان رکھ کر گناہوں کی معافی حاصل کی ہے، بلکہ یہ اُن کی نجات ہے جو کامل ہے۔ کیونکہ ہمارا ایمان جس نے ہمیں بچایا ہے مکمل ہے، ہم خُدا کے فضل سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ اور چونکہ ہم آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے کی درست سچائی کے
ساتھ اپنے فیصلے پر پہنچتے ہیں، اِس لیے ہمارا ایمان اور ہمارا عدل کبھی ناقص نہیں ہوتے۔
خُدا نے ہمیں بتایاہے کہ عدل کے اِس معیار کو ہمیشہ کاہنوں کے دلوں کے او پر رکھیں۔ ہمیں  یقیناًاِس دُنیا کے تمام لوگوں کو اپنے دلوں میں قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں اُن کی روحوں کو گلے لگانا چاہیے، اُن کے لیے دُعا کرنی چاہیے، اور درحقیقت پانی اور روح کی خوشخبری اُن تک پھیلانی چاہیے۔ اِس لیے ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں میں عدل کا سِینہ بند رکھنا چاہیے۔ اور آج اور کل، ہمیں ہمیشہ تمام گنہگاروں کو گنہگار قرار دینا چاہیےتاکہ اُنہیں پانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کی جاسکے۔
میری دلی خواہش ہے کہ ایمان کی یہ سچائی آپ کے دلوں میں پائی جائے۔ اگر یہ سچائی آپ کے دلوں میں ہے، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوسب کا عدل کرنے کا حق دیا جاچکا ہے۔ اِس کلام حق پر ایمان رکھیں۔ اپنے فیصلے کو ہمیشہ خُدا کے کلام کی بنیاد پر اِس طریقےسے بنائیں، اور ہر وقت پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھیں اوراِسے اپنے پورے دل سے پھیلائیں۔
ہر روز، مَیں اپنے دل میں اِس عدل کے سِینہ بند کو یاد رکھتا ہوں، خُدا کے سامنے ہر چیز کاعدل کرتا ہوں، اور خوشخبری کو پھیلانا جاری رکھتا ہوں۔ تکرار، درحقیقت ، خوشخبری کو پھیلانے کا ایک انتہائی مؤثر ذریعہ ہے۔ کتنے بھولنےوالے ہیں ہم! ماہرین تعلیم اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ساکھ کے لحاظ سے تعلیم تعلیم کا سب سے روایتی اور مؤثر طریقہ ہے۔ ایک ماہر لسانیات نے ایک بار زور دے کر کہا تھا کہ ایک بچہ ایک لفظ کو ایک ہزار سے زیادہ بار دہرانے سے ایک لفظ کو صحیح طور پر بول سکتا ہے۔ اِسی طرح جب ہم پانی اور روح کی سچائی کا کلام مسلسل اور بار بار پھیلاتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں نقش ہو جاتا ہے۔ مَیں نے اِس خوشخبری  کی سچائی کو بار بار لکھا ہے تاکہ جب لوگ ہماری کتابیں پڑھیں تو وہ آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان کی سچائی کو سمجھ سکیں، اور اس پر ایمان رکھیں۔ اِس لیے ہم اِس خوشخبری کی سچائی کی منادی کرناجاری رکھتےہیں۔
بھائیو اور بہنو، ہم مقدسین کو ایک دوسرے کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنا چاہیے۔ جب ہم اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور خُدا کے فضل کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو ہمارے دل ایک دوسرے کے ساتھ صحیح معنوں میں رابطہ کر سکتے ہیں، اور کوئی بھی غلط علم یا غلط فہمی جو ہمیں ہوئی ہو، اِسے درست اور بہتر کِیا جا سکتا ہے۔ اور اِسی کے ذریعے ہم روحانی طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔ جیسے جیسے ہمارا ایمان بڑھتا ہے، ہماری ایمانی زندگیاں بھی آگے بڑھتی ہے۔ ہم محض کتنی بار غلط سوچ چکےہیں؟ ہمارا پچھلا علم محض کتنا ناقص تھا؟ اور حقیقت میں اِس کا کتنا حصہ محض نظریاتی تھا؟ پانی اور روح کی خوشخبری کو جاننے سے پہلے ہمارے پاس جتنے بھی عقائد تھے وہ محض نظریاتی تھے۔
پَولُس رسول نے کہا کہ جو کوئی بھی اِس خوشخبری کے علاوہ کسی دوسری خوشخبری کی منادی کرے جو اُس کے پاس تھی وہ ملعون ہو گا (گلتیوں ۱:۹)۔ پَولُس نے یہ بھی کہا کہ وہ خُدا کی سچائی کے علاوہ  جو کچھ جانتاتھااِسے کَباڑکےطور پر شمار کرتاہے۔ تاہم، آج کی مسیحیت میں، وہ لوگ جو صرف اپنے ہی فضول مذہبی علم پر فخر کرتے ہیں، طاقتور ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ ہم جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان کے ذریعے بچائے گئے ہیں، ہم اپنے دلوں کے ساتھ باہم متحد ہو سکتے ہیں۔ اور ہم پانی اور روح کی اِس خوشخبری سے شرماتے نہیں ہیں، کیونکہ اِس سچائی نے ہمیں جہنم کے ابدی عذاب سے نجات دی ہے۔ بلکہ، ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دُنیا کے آخر تک اِس خوشخبری کی سچائی کی منادی کیےبغیرنہیں رہ سکتے جو آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے رنگوں میں پوشیدہ ہے۔ یہ مشن ہے جو ہمیں فوری طور پر انجام دینا ہے۔
جب مجھے پہلی باراحساس ہوا کہ پانی اور روح کی یہ خوشخبری ہی واحد سچائی ہے، تو مجھےبہت صدمہ پہنچا۔ ”آہ، یہ ہے! یہ ہے اور پھربھی مَیں اب تک اِسے نہیں جانتا تھا۔ کیا دُنیا بھرکے مسیحی یہ جانتے ہیں؟ کیا مذہبی ماہرین اِس کے بارے میں بات کرتے ہیں؟“  کاش کہ الہٰیات دانوں میں کوئی ایسا ہوتا جو اِس سچائی کو جانتا اور بولتا۔ لہٰذا مَیں نے مسیحیت کی تمام تھیالوجیکل شاخوں کی اُس وقت تک تحقیق کی جب تک مَیں یہ معلوم کر سکوں کہ آیا اِن مَیں پانی اور روح کی خوشخبری کا ذرا سا بھی نشان ہے، لیکن یہ سب کچھ رائیگاں گیا۔
چنانچہ مَیں نے اِس خوشخبری کی سچائی کو سمجھنے کے بعد پہلی دُعا یہ کی: ”خُداوند، مَیں پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایمان رکھتا ہوں۔ مَیں ایمان رکھتا ہوں کہ تونے بپتسمہ لے کر میرے تمام گناہوں کو اُٹھالیا، صلیب پر مُؤا، دوبارہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور یہ کہ تونے اب مجھے بچالیا ہے۔ لیکن خُداوند، اِس پوری دُنیا کے تمام لوگ ابھی تک اِس سچائی کو نہیں جانتے۔ مجھے اِس سچائی کو پوری دُنیا میں پھیلانے دے۔ مجھے تیری اصل خوشخبری کی منادی کرنے کی اجازت دے جیسی کہ یہ ہے۔
یہ ایک حیرت انگیز نعمت ہے کہ مَیں نےآپ سے ملا قات کی ہے، میرے ساتھی کارکنوں۔ چند سچائی کے متلاشیوں سے ملنا جو خُدا کی تلاش میں ہیں، اُنہیں آسمانی، ارغوانی اور سُرخ رنگ کے دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان کی سچائی کی منادی کرنا، اور اِس پر ایمان رکھ کر اِن کے ساتھ مل کر اِس طرح خدمت کرنا،اُن ہزار لوگوں سے ملنےاور سکھانےسےزیادہ بہترہےجو نہ تو خُدا کے کلام کو سُنتے ہیں اور نہ ہی اِس پر ایمان رکھتے ہیں۔ مَیں خُدا کا بہت شکر گزار ہوں کیونکہ آپ سب اُس کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں!
واقعی، دُنیا میں بہت کم لوگ آپ اور میری طرح خوش ہیں۔ اِس دُنیا میں ہمارے جتنے حقیقی بھائی اور بہنیں کس کے پاس  ہیں؟ یہ سب چیزیں واقعی سچائی کے خُدا کی طرف سے آئی ہیں۔ جب خُدا نے ہمیں اتنی قیمتی نعمتیں دی ہیں، جب خُدا نے ہمیں اتنی قیمتی نجات دی ہے، اور جب خُدا نے ہمیں اتنی قیمتی کہانت سونپی ہے، تو ہم اُس کی خوشخبری کے لیے کیسے کام نہیں کر سکتے، ہم گنہگاروں کا عدل کیسے نہیں کر سکتے، اور ہم پانی اور روح کی خوشخبری کیسے نہیں پھیلا سکتے ہیں؟ جب ہم خوشخبری پھیلا رہے ہیں، تو ہم اُن لوگوں کو کیسے الگ نہیں کر سکتے جنہوں نے گناہوں کی معافی حاصل کی ہے اور جنہوں نے نہیں کی ہے؟ جس طرح خُدا نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرتے وقت روشنی کو تاریکی سے الگ کِیا، اُسی طرح ہم بھی گنہگاروں کو راستبازلوگوں سے واضح طور پر الگ کرتے ہیں۔ جب ہم حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں تو خُدا خوش نہیں ہوتا۔ اور اِس لیے وہ کہتا ہے، ’’ تُو اپنے تاکِستان میں دو قِسم کے بِیج نہ بونا تا نہ ہو کہ سارا پَھل یعنی جو بِیج تُو نے بویا اور تاکِستان کی پَیداوار دونوں ضبط کر لِئے جائیں۔تُو بَیل اور گدھے دونوں کو ایک ساتھ جوت کر ہل نہ چلانا۔تُو اُون اور سَن دونوں کی ملاوٹ کا بُنا ہُؤا کپڑا نہ پہننا“ (استثنا ۲۲:۹-۱۱)۔ یہ ہے کیوں ہمیں گنہگاروں کو الگ کرنا ہے، اور اُن کے لیے واضح طور پر عدل کرنا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے خُدا کا کلام سُنا ہے اِس کو سچ مانیں چاہے یہ اُن کی ترجیحات کے مطابق نہ ہو۔ جو لوگ خُدا کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں وہ اُس کے فضل سے دُنیا کا نور بن جاتے ہیں لیکن جوایمان نہیں رکھتے وہ اندھیروں سے نہیں بچ سکتے۔ یہ اِس لیے ہے کہ ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہم اُورِیمؔ اورتُمیّمؔ بن گئے ہیں، یعنی ’روشنی اور کاملیت۔ ‘ ہم وہ بن گئے ہیں جو خُدا میں گناہ سے مکمل طور پر نجات پاچکے ہیں۔
کیا آپ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھ کر مکمل طور پر خُدا کے فرزند بن چکے ہیں؟ اب ہم اپنی زندگیاں شاہی کہانت کے کاموں میں گزار رہے ہیں، یہ سب یِسُوعؔ مسیح کی بدولت ہےجو اِس دُنیا کےلیے بادشاہوں کا بادشاہ بن گیا ہے۔ مَیں خُدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے ہمیں نجات کی یہ خوشخبری دی۔ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ خُدا ہمیں اِس زمین پر رہتے ہوئے شاہی کہانت کے اپنے فرائض کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے قابل بنائے۔
ہیلیلویاہ! مَیں ہمیشہ اپنے خُدا کی تعریف کرتا ہوں۔ *