Search

خطبات

مضمون 9: رومیوں (رومیوں کی کتاب پر تفسیر)

[باب2-3] ختنہ وہی ہے جو دل کا <رومیوں۲: ۱۷۔۲۹ >

<رومیوں۲: ۱۷۔۲۹ >
”پس اگر تو یہودی کہلاتا اور شریعت پر تکیہ اور خدا پر فخر کرتا ہے۔ اور اُس کی مرضی جانتا اور شریعت کی تعلیم پا کر عمدہ باتیں پسند کرتا ہے۔ اور اگرتجھ کو اِس بات پر بھی بھروسا ہے کہ میں اندھوں کا رہنما اور اندھیرے میں پڑے ہوؤں کیلئے روشنی۔ اور نادانوں کا تربیت کرنے والا اور بچوں کا اُستاد ہوں اور علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے وہ میرے پاس ہے۔ پس تو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتاہے۔؟ تو جو وعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟ تو جو کہتا ہے کہ زنا نہ کرنا آپ خود کیوں زنا کرتا ہے؟ تو جو بتوں سے نفرت رکھتا ہے آپ خود کیوں مندروں کو لوٹتا ہے؟ تو جو شریعت پر فخر کرتا ہے شریعت کے عدُول سے خدا کی کیوں بیعزتی کرتا ہے۔؟ کیونکہ تمہارے سبب سے غیرقوموں میں خدا کے نام پر کُفر بکا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ لکھا بھی ہے۔ ختنہ سے فائدہ تو ہے بشرطیکہ تو شریعت پر عمل کرے لیکن جب تو نے شریعت سے عدول کِیا تو تیرا ختنہ نامختونی ٹھہرا۔ پس اگر نامختون شخص شریعت کے حکموں پر عمل کرے تو کیا اُس کی نامختونی ختنہ کے برابر نہ گنی جائیگی؟اور جو شخص قومیت کے سبب سے نامختون رہا اگر وہ شریعت کو پورا کرے تو کیا تجھے جو باوجود کلام اورختنہ کے شریعت سے عدُول کرتا ہے قصور وار نہ ٹھہرائے گا؟ کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہری اور جسمانی ہے۔بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ ایسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔“
 
 

ضرور ہے کہ ہم اپنے دلوں کا ختنہ کریں

 
” ختنہ و ہی ہے جو دل کا۔“ جب ہم دل سے ایمان لاتے ہیں تو ہم نجات پاتے ہیں۔ ہمیں اپنے دلوں میں مخلصی کو حاصل کرنا چاہیے۔خدا کہتا ہے، ” ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ ایسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے “ (رومیوں ۲:۲۹)۔ہمیں گناہوں کی معافی کو اپنے دل میں رکھناچاہیے۔ اگر ہم گناہوں کی معافی کو اپنے دل میں نہیں رکھتے، تو یہ بے اثر ہے۔ آدمی کے پاس ” ظاہر اور باطن ہے “ اور ہر ایک کو باطنی طور پر گناہوں کی معافی حاصل کرنی چاہیے۔
پولوس رسول یہودیوں سے کہتا ہے، ” ختنہ وہی ہے جو دل کا۔“ پھر یہودیوں کا ختنہ کیا ہُوا؟ وہ جسم کے بیرونی حصہ کا ختنہ کرتے تھے۔ مگر، پولوس رسول کہتا ہے، ” ختنہ وہی ہے جو دل کا۔ “ یہودی ظاہری ختنہ پر یقین رکھتے، لیکن پولوس کہتا ہے، ختنہ وہی ہے جو دل کا۔جب ہم خدا کے فرزند ٹھہرتے ہیں تو وہ ہمیں ہمارے دلوں میں بتاتا ہے۔
 پولوس ظاہر ی ختنہ کے متعلق بات نہیں کرتا ،بلکہ باطنی ختنہ اور گناہوں کی معافی کے متعلق بات کرتا ہے۔ اسلئے جب وہ کہتا ہے،” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہوا؟ “ (رومیوں ۳:۳)۔ اس کا مطلب ہے، ” بعض دل سے ایمان نہیں لاتے۔“ وہ ظاہر ی ایمان لانے والوں کے متعلق بات نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے، ”دل سے ایمان لاؤ۔“ ہمیں جاننا چاہیے کہ پولوس کا مطلب اور گناہوں کی معافی کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ خدا کے کلام کے وسیلہ کسطرح اپنے دلوں میں گناہوں کی معافی کو حاصل کرنا ہے۔
” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہوا؟ “ کا مطلب ہے” کیا ہوا اگر یہودی یسوع مسیح پر نجات دہندہ کے طور پرایمان نہیں لائے، اگرچہ وہ جسم کے اعتبار سے ابراہام کی اولاد ہیں ؟ “ کیا اُن کی بے وفائی خدا کی وفا داری کو باطل کر سکتی ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ خدا ہمارے گناہ مٹا دیگا اور ابراہام کی اولاد کے گناہ بھی بے اثر ہو جائیں گے۔ پولوس کہتا ہے کہ یہودی جو جسم کے اعتبار سے ابراہا م کی اولاد ہیں اُس وقت نجات پاتے ہیں جب وہ یسوع کو اپنا نجات دہندہ اور خدا کا بیٹا ہونے پر ایمان لاتے ہیں،جس نے دنیا کے گناہوں کو اپنے بپتسمہ اور صلیبی موت کے وسیلہ دور کر دیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کا فضل اور نجات جو یسوع مسیح کے وسیلہ ہے کبھی بے اثر نہیں ہو سکتاہے۔
رومیوں۳:۳۔۴بیان کرتا ہے، ” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہُوا؟کیا اُنکی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ہرگز نہیں۔بلکہ خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقدمہ میں فتح پائے۔“ خدا وند نے اپنے کلام میں وعدہ کِیااور اپنا وعدہ اپنے وسیلہ ہی پورا کرنے کے ذریعے ایمانداروں کو پاک کِیا ۔ خدا اُن کو اپنی راستبازی دکھانا چاہتا اور راست ٹھہرانا چاہتا ہے جو اُس کے کلام کے وسیلہ جو اُس نے اُس وقت پورا کیا جب وہ پرکھا گیا یسوع پر ایمان لا چکے ہیں۔یہاں تک کہ ہم ،جو اپنے دلوں میں گناہوں کی معافی پاچکے ہیں اُس کے کلام کے وسیلہ عدالت میں آئیں گے اور جب ہماری عدالت ہوگی تو اُس کے کلام سے فتح پائیں گے۔
 
 
پولوس رسول ظاہری اور باطنی خودی کے متعلق بتاتا ہے
 
پولوس اپنے ” ظاہر اور باطنی خودی کے متعلق بات کرتا ہے۔“ ہم ایک ظاہر اور باطن رکھتے ہیں جو کہ جسم اور روح ہیں۔ ہم بالکل اُس کی طرح ہیں۔ اب پولوس اِس مسئلہ کو اُٹھا تا ہے۔
رومیوں۳:۵ بیان کرتا ہے، ” اگر ہماری ناراستی خدا کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟“ پولوس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس کا ظاہری جسم صاف ہے۔ جب تک وہ مر نہیں جاتا گناہ اُس سے ہو جاتا ہے اور اُس کا جسم گندا ہے۔ اس میں دنیا کے سب لوگ اِس میں شامل ہیں۔ تا ہم، اگر خدا اُن لوگوں کو نجات دے چکا تھا، تو کیا یہ خدا کی راستبازی کی خوبی کو ظاہر نہ کرے گا؟اگرچہ انسان ظاہر میں کمزور ہے تو بھی اگر خدا اُنہیں مخلصی دے تو کیا وہ راستباز نہ ٹھہریگاَ؟ اسی طرح پولوس فرماتا ہے، ” کیا یہ کہ خدا بے انصاف ہے جو غضب نازل کر تا؟(میں یہ بات انسان کی طرح کہتا ہوں)۔ ہرگز نہیں۔ ورنہ خدا کیونکردُنیاکا انصاف کریگا “ (رومیوں۳ :۵۔۶) پولوس وضاحت کرتا ہے کہ ہم اِس وجہ سے نجات نہیں پاتے ہیں کہ ہمارا صرف ظاہر ہی پاک ہے۔
ہم ظاہر اور باطن رکھتے ہیں۔ تاہم، پولوس دل کے میدان میں کہتا ہے،” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہوُا؟کیا اُنکی بےوفائی خُدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ختنہ وہی ہے جو دل کا۔“ اگر ہم ایک مرتبہ راستباز شخص ٹھہرتے ہیں اور پھر اگلے ہی دن ظاہری خودی پر مبنی ایمان کے وسیلہ جو کمزور اور گناہ کرتا ہے ہم پھر ایک گنہگار بن جاتے ہیں تو پھر یہ حقیقی ایمان نہیں ہے۔
 
 

ظاہری آدمی اپنے مرنے کے دن تک ہمیشہ گناہ کرتاہے

 
پولوس رسول اپنی اُمیدوں کو اپنی ظاہری خودی میں مر قوم نہیں کرتا۔وہ جن کے گناہ مٹ چکے
ہیں وہ بھی ظاہر اور باطن رکھتے ہیں۔ جب وہ اپنے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو وہ کیسا محسوس کر تے ہیں؟ وہ مایوس ہُوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔آئیں اپنے ظاہر پر نگاہ کریں۔ بعض اوقات ہم خوب ہوتے ہیں، اور بعض اوقات ہم محض نفرت انگیز ہوتے ہیں۔ لیکن بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ ہمارے ظاہری جسمانی کا م یسوع مسیح کے ساتھ صلیب پر مصلوب ہوگئےتھے۔ ہم بدنی طور پر مر گئے ،اور یسو ع نے ہمارے سب جسمانی گناہوں کو معاف کر دیا۔
ہم جو نجات یافتہ ہیں اکثر جب ہم اپنے ظاہر پر نگاہ کرتے ہیں تو ہم اپنی ظاہری زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب ہمارا ظاہری جسم اچھے کام کرتا ہے تو ہم پُر اُمید دکھائی دیتے ہیں ،مگر جب وہ ہماری توقعات پر پوری نہیں اُترتے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے ظا ہر سے مایوس ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنی ظاہری زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔جب ہم اپنے ظاہری جسم سے مایوس ہوجاتے ہیں تو ہم اپنی سوچ کا رجحان اِس طرف کر لیتے ہیں کہ ہمارا ایمان ختم ہو چکا ہے۔ تاہم، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ہماری ظاہری زندگی پیشتر سے ہی مسیح کے ساتھ مصلوب ہو گئی تھی۔وہ جو گناہوں کی معافی حاصل کر چکے ہیں وہ بھی اپنے جسمانی کاموں کے وسیلہ گناہ میں گر جاتے ہیں۔ مگر کیا یہ ایک گناہ نہیں ہے؟ ہاں یہ ہے ،لیکن یہ ایک مرُدہ گناہ ہے۔ یہ مرُدہ اسلئے ہے کیونکہ خدا وند نے یہ گناہ اپنے ساتھ صلیب پر مصلوب کر دیئے تھے۔ گناہ جو بیرونی زندگی کے وسیلہ غیر دانستہ طور پر ہو جائیں کو ئی سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے، تاہم سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دل خداوند کے نزدیک خالص نہیں ہیں۔
 
 
ہمیں دل سے خدا پر ایمان رکھنا چاہیے
 
گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے فوراً بعد راستباز کے سامنے اور بدیا ں آموجود ہوتی ہیں۔اسلئے، اگر ہم نے اپنی نجات کی بنیاد ظاہری شخصیت پر رکھی ہے جو ہر ایک لمحہ گناہ کرتی اور گناہ کو روک نہیں سکتی تو پھر خدا کی نجات ایسے اشخاص کیلئے بے اثر ہو جائے گی۔ اگر ہم اپنے ایمان کی بنیاد ظاہری زندگی پر رکھتے
ہیں، تو جیسا ایمان ابراہام کا خدا پر تھا ،ہم اُس ایمان سے منحرف ہو جائیں گے۔
پولوس رسول فرماتا ہے، ” ختنہ وہی ہے جو دل کا۔“ ہم دل سے ایمان لانے کے وسیلہ راستباز اور پاک ٹھہرائے جاتے ہیں ،نہ کہ اپنے ظاہری کاموں کے موافق۔ ہماری پاکیزگی کا دارومدار اِس بات پر نہیں کہ آیا ہمارے کام خدا کی شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں۔ کیا آپ اِسے سمجھ رہے ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ظاہر اور باطن دونوں رکھتے ہیں اور یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اِسلئے ،بعض اوقات ہم اپنا رجحان ظاہری زندگی کی طرف زیادہ موڑ لیتے ہیں۔ اگر ہماری ظاہری زندگی خوب ہے تو ہم پُر اعتماد ہوتے ہیں ،لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔پولوس کہتا ہے کہ یہ غلط ایمان ہے۔
” ختنہ وہی ہے جو دل کا۔“حقیقی سچائی کیا ہے؟ کیسے ہم جان پاتے اور دل سے ایمان لاتے ہیں؟متی ۱۶باب میں، یسوع نے پطرس سے پوچھا،” تم مجھے کیا کہتے ہو۔؟ “ پھر پطرس نے اپنے ایمان کا اقرار ،یہ کہتے ہوئے کیا، ” تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ “ پطر س دل سے یہ ایمان لایا۔ یسوع نے کہا، ”مبارک ہے تو شمعون بَر یوناہ کیونکہ یہ بات خون اور گوشت سے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے۔ “ یسوع نے فرمایا کہ پطرس کا ایمان درست ہے۔
ابراہام کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ خدا نے اُسے اپنے کلام سے آگاہی دی اور وعدہ کیا کہ وہ اُسے ایک بیٹا دیگا اور وہ بہت سی قوموں کا باپ ہوگا۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ وہ اُس کا خدا اور اُسکے بعد اُسکی اولاد کا خدا ہو گا۔ خدانے ابراہام کے گھرانے اور اُسکی اولاد کے درمیان اور ابراہام اور خدا کے درمیان ختنہ کو ایک ابدی عہد ٹھہرایا۔ خدا نے فرمایاکہ، ” ختنہ کا نشان اِس بات کا عہد ہے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔“ ابراہام دل سے اِس عہد پر ایمان لایا۔ وہ ایمان لایا کہ خد اضرور اُس کا خدا ہوگااور اُس کی اولاد کو برکت دیگا۔ وہ یہ بھی ایمان لایا کہ خدا اُس کے بعد اُس کی اولاد کا خدا ہو گا۔ وہ خدا پر ایمان لایا۔
 
 
ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر دل سے ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں
 
ہم دل سے یہ ایمان لانے سے کہ خدا ہمارا خدا اور نجات دہندہ ہے راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے دلوں سے ایمان لانے کے وسیلہ نجات پاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم کسِی اور چیز کے علاوہ نجا ت نہیں پا سکتے ہیں۔ ہم دل سے یہ ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہر چکے ہیں کہ خدا ہمارا خدا ہے اور اُس نے یسوع کے بپتسمہ اور صلیبی موت کے وسیلہ ہمارے سب گناہوں کو مٹا دیا ہے۔ دل سے ایمان لانا ہی ہمیں رہائی دے سکتا ہے۔ اِسلئے بائبل مقدس فرماتی ہے، ” کیونکہ راستباز ی کیلئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اورنجات کیلئے اقرار منہ سے کیِاجاتا ہے“ (رومیوں۱۰:۱۰)۔
 اِس وقت ہمیں واضح کر دینا چاہیے کہ ہم اپنے دل سے ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں ،نہ کہ اپنے جسم کے نیک کاموں کے وسیلہ۔ہم راستباز نہیں بن پائیں گے اگر یسوع ہماری ظاہری راستبازی کی شرط یہ کہتے ہوئے اس کے ساتھ منسوب کر دیتا کہ، ” میں تمہارے سب گناہ مٹادوں گا ،لیکن ایک شرط کے ساتھ۔ اگر تم گناہ کرنے سے پرہیزکروتو تم میرے فرزند ٹھہر سکتے ہو۔ اور اگر تم ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہو تو تم میرے فرزند نہیں ٹھہر سکتے۔“
ہم دل سے ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اگر خدا ہماری ظاہر ی شخصیت کی شرط کو ہماری نجات سے منُسلک کر چکا ہوتا تو کیا ہم راستباز ٹھہرائے جا سکتے تھے؟ کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ خدا نے دریائے یردن پر بپتسمہ پانے، اور مصلوب ہونے اور آپکی جگہ عدالت برداشت کرنے کے وسیلہ آپکے سب گناہوں کو دور کر کے آپکو نجات دی ہے؟آپ اِس پر کیسے ایمان رکھتے ہیں؟ کیا آپ اپنے دل سے ایمان نہیں لاتے ہیں؟کیاآپ کامل طور پر نجات پا چکے ہوتے اگر خدا نے فرمایا ہوتا کہ، ”میں تمہاری صغیرہ خطاؤں کو معاف کر دونگا مگر کبیرہ خطاؤں کو معاف نہیں کرونگا۔ اگر تم اس شر ط کو قائم رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہو تو میں تمہاری رہائی کو بے اثر کر دونگا ۔؟ “
 
 

ہمیں ظاہری آدم کو باطنی آدم سے الگ کرنا چاہیے

          
ہمارا جسم، ظاہری آدم، ہمیشہ کمزور ہے اور اپنے آپ خد اکی راستبازی تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ہم خدا کے نزدیک دل سے ایمان لانے کے باعث ہی راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں کیونکہ اُس نے اُنہیں بچانے کا وعدہ کِیا جو اپنے دلوں سے ایمان لاتے ہیں۔ اپنے ایمان کو دیکھتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں جو خدا نے کِیااور یہ کہ یسوع نے ہمارے گناہوں کو دور کِیا اور ہمارے دلوں سے گناہوں کو مٹا دیا ،اور خدا ہمیں اپنے راستباز فرزند ٹھہراتا ہے۔ یہ عہدِ خداوندی ہے، اور وہ اپنے وعدہ کو پوراکر کے ہمیں نجات دے چکا ہے۔
 خدا فرماتا ہے کہ جب وہ ہمارے دلوں میں ایمان کو دیکھتا ہے، تو ہمیں اپنے لوگوں میں شامل کر لیتا ہے۔ ضرور ہے کہ ہم اپنی ظاہری زندگی سے باطنی زندگی کو جُدا کریں۔ اگر ہم اپنی نجات اپنے جسمانی کاموں سے مُنسلک کریں تو اِس دنیا میں کو ئی بھی گناہوں کی معافی کو حاصل نہیں کر پائے گا۔” ختنہ وہی ہے جو دل کا۔“ ہم یسوع مسیح پر اپنے دلوں سے ایمان لانے کے وسیلہ نجات پاتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں؟ ” کیونکہ راستبازی کیلئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کیلئے اقرار منہ سے کِیا جاتا ہے “ (رومیوں۱۰:۱۰)۔پولوس رسول واضح طور پر ظاہری آدم کو باطنی آدم سے جدا کرتاہے۔
ہمارا ظاہری آدم کُتے کی اُلٹی سے بھی بد ترین ہے۔ یہ بیکار ہے۔ ہمیں ابراہام کی مثال کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے آپ پر نگاہ کریں۔ اپنے بیکار جسم کو دیکھیں۔ جسم بلند معاشرتی مقام حاصل کرنے اورا میرانہ زندگی بسر کرنے کی کوشش میں فریب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ کیا جسم ہمیشہ اپنے فائدہ تلاش کرنے کے علاوہ کچھ کرتا ہے؟اگر جسم کی یہ عدالت کی جائے کہ یہ کیسے سوچتا اور عمل کرتا ہے تو پھر جسم کو ایک ہی دن میں بارہ مرتبہ سے بھی زیا دہ عدالت میں آنا ہوگا۔ جسم خدا کے مخالف ہے۔
خوش قسمتی ،سے خدا ہماری ظاہری زندگی کی پرواہ نہیں کرتا ،بلکہ وہ صرف ہمارے باطن کو ہی خاطر میں لاتا ہے۔جب وہ ہمیں دیکھتا ہے کہ ہم واقعی اپنے دل سے یسوع پر اپنے نجات دہندہ ہونے کا ایمان رکھتے ہیں تو وہ ہمیں مخلصی دے دیتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اُس نے ہمیں ہمارے سب گناہوں سے نجات دی ہے۔
 
 
ہم اپنے خیا لات کے ذریعےکبھی بھی نجات نہیں پاسکتے
 
آئیں اپنے خیا لات پر نظر دوڑائیں۔ہماری سوچ کے مطابق ہم صرف اپنے خیالات کے وسیلہ ہی ایمان لاسکتے ہیں۔ ہم جسمانی سوچوں کے ساتھ یہ خیال کرتے ہوئے ایمان لاسکتے ہیں، ’ میں نے اِس لئے نجات پائی کیونکہ خدا نے مجھے نجات دی۔ ‘ تاہم،ہم اپنے خیا لات کے وسیلہ چھٹکارا نہیں پاسکتے ہیں۔ نفسانی عقل ہر وقت بدلتی رہتی ہے اور ہمیشہ برائی کرتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ نفسانی عقل کے خیالات ہمیشہ یہ برائی کرنا چاہتے ہیں اور یہ اُسکی خواہش کے مطابق ہے۔
فرض کریں کہ اگر کوئی اپنے ایمان کی بنیاد اپنے خیالات پر رکھتا ہے۔ وہ اپنی نجات پر اعتماد رکھ
سکتا ہے جبکہ اُس کے موجودہ خیالات اُسکے پچھلے خیالات سے مُتفق ہیں، یعنی یہ کہ، ’ یسوع نے دریائے یردن پر ہمارے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ ‘ تاہم ،کیونکہ جسم کے خیالات مستحکم نہیں ہیں، وہ مزید اپنے خیا لات سے اُس کی نجات پر بھروسہ نہیں رکھ سکتا، ذرا سا شک بھی اُسکی ناتوان نجات کے خیال کو زائل کر دیتاہے۔ جسمانی خیال پر مبنی غلط ایمان شک کے ایک ہی وار سے تہس نہس ہو جائے گا۔
اگر ہم اپنے ایمان کی بنیاد ہماری اپنی سوچوں پر رکھتے ہیں تو ہم واقعی اُس پر اور سچائی پر ایمان نہیں لا سکتے ہیں۔اِس طرح کا ایمان ریت پر بنے ہوئے گھر کی مانند ہے، ” اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گِر گیا اور بالکل برباد ہو گیا “ (متی۷:۲۷)۔
اِس لئے، ایک شخص کا ایمان جو خیالات پر یقین کرتا ہے خدا کے کلام پر مبنی ایمان سے بہت دور ہے۔ خدا نے فرمایا، ” تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقدمہ میں فتح پائے“(رومیوں۳ :۴)۔ ہماری نجات اُس کے کلام پر مبنی ہونی چاہیے۔ کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا،اور خُدا کلام ہے۔کلام مجسم ہو کر زمین پر آدمیوں کی صورت آیا۔یسوع نے ہمیں خلاصی دی اور اپنی زندگی کے ۳۳برس اِس زمین پر بسر کرنے کے بعد آسمان پر اُٹھا لیا گیا ،اور وعدہ کے کلام کو مرقوم کرنے میں اپنے شاگردوں کی راہنمائی کی جو کہ پرانے عہد نامہ کی تکمیل ہے جو پیشتر سے اُس نے اپنے نبیوں کے وسیلہ بھی بیان کی تھی۔ یسوع نے بائبل میں جو کچھ فرمایا اُسے حرف با حرف پورا کِیا۔خدا کلام کے ساتھ اور کلام میں ظاہر ہوا، ہمیں سکھایا او ر کلام کے وسیلہ ہمیں نجات دی۔
ہم اپنے خیالات کے باعث اُس وقت گناہوں کی معافی حاصل نہیں کر سکتے جب ہم بے ایمان ہو کر یہ خیال کرتے ہیں کہ ’ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ مَیں نجات یافتہ ہوں ،مگر بعض اوقات میں خدا وند کی نجات پر ایمان نہیں لا سکتا ‘ ہم اپنے انسانی خیالات کے وسیلہ نجات نہیں پا سکتے کیونکہ ہمارے خیالات میں تو ہمیشہ بدلاؤ آتا رہتا ہے اور یہ خیالات ہمیشہ سچے نہیں ہوتے۔
اِسلئے، پولوس رسول نے فرمایا کہ ختنہ وہی ہے جو دل کا اور ہم اُسکی راستبازی پر اپنے دل سے ایمان لاتے ہیں۔جب ہم اُسکے کلام پر ایمان لاتے ہیں ،تو دل ظاہراً گواہی دیتا ہے کہ خدا نے پرانے عہد نامہ میں یہ وعدہ کِیا ،اور اِس عہد کو پورا کِیا۔ نئے عہد نامہ میں اُس نے اپنے کلام کے ذریعے بالکل اُسی طرح مخلصی دی جیسا کہ اُس نے پرانے عہد نامہ میں بیان کِیا تھا۔ ہم اُسکے کلام پر دل سے ایمان لانے کے وسیلہ
نجات پاتے ہیں۔
 
 
ہم نے پانی اور روح کی خوشخبری پر اپنے دل سے ایمان لانے کے وسیلہ نجات پائی
 
ہم نے ایمان کے وسیلہ نجات پائی کیونکہ ہمارا دل تو خدا کو قبول کر سکتا ہے ،مگر شایدہمارے نفسانی خیالات اُسکا اقرار نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے دل سے ایمان لانے کے وسیلہ خدا کے فرزند ٹھہرے ہیں، نہ کہ اپنے اعمال یاظاہری آدم کے خیالات کے وسیلہ۔ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہم دل سے اُس پرایمان لانے کے وسیلہ خدا کے فرزند ٹھہرتے ہیں۔ کیا آپ اپنے دل سے ایمان لائے ہیں؟کیا آپ نے اپنے دلوں کا ختنہ کِیا ہے؟ کیا آپ اپنے دل سے ایمان لائے ہیں کہ یسوع آپکا نجات دہندہ ہے؟ جو کوئی خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے آپ میں گواہی رکھتا ہے۔ کیا آپ اپنے آپ میں خد اکے بیٹے کی گواہی رکھتے ہیں کہ یسوع نے آپکو کامل نجات دی ہے، نہ کہ آپکے اپنے ذاتی تجربہ کی گواہی نے؟کیا آپ کے دل میں خدا کا کلام موجود ہے؟ کیا آپ کے پاس وہ کلام ہے جس نے آپ کو گناہوں کی معافی عنایت کی ہے؟حقیقی ایمان کو پانے کیلئے ایمان کے وسیلہ نجات کو حاصل کرنا چاہیے۔
ہم اپنے دلوں سے خدا کے کلام پر ایمان لانے کے وسیلہ گناہوں کی مخلصی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم ،جب ہم اپنے ظاہری آدم کی کمزوریوں پر نگاہ کرتے ہیں تو اکثر ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ہم خدا پر ایمان سے پھر کر پسپائی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی جو اِس حقیقت کومکمل طور پر نہیں سمجھتا وہ اِسی کشمکش میں ہے۔ اکثر مسیحیوں نے اپنے ایمان کے نقطہ نگاہ کو اپنے کاموں پر مرکوز کِیا ہوُا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ضرور ہے کہ ہم اپنے ایمان کا اِکتفا اپنے خیالات پر نہ کریں۔ ہمیں اپنے ایمان کی بنیا د کو اپنی ظاہریت پر رائج نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جسم بالکل نکما ہے۔جب کوئی دل سے خدا کے کلام پر ایمان لاتا ہے تو پرانا عہد نا مہ اور نیا عہد نامہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ راستباز ٹھہرتاہے۔ہم اپنے کاموں یا خیالات کے وسیلہ نجات نہیں پاتے، بلکہ اپنے ایمان کے وسیلہ سے۔ ہم جسم کے کاموں کے وسیلہ قطاً نجات نہیں پا سکتے۔ خواہ ہم نیک عمل کرتے ہیں یا گناہ کرتے ہیں اِس بات کا خدا اور اُس کے جلال سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔
اسلئے، سچے ایمان کا مطلب دل سے خدا کی حقیقی نجات پر ایمان لانے کے ذریعے نجات پانا ہے۔ جب ہمارےدل ہی پاک نہیں تو ہمارا ایمان بھی درست نہیں اور اگر ہمارا دل ٹھیک ہے تو ہمارا ایمان بھی درست ہے۔ راست طرزِعمل راست ایمان کے ذریعے آتا ہے۔ بُرا طرزِعمل اسلئے آتا ہے کیونکہ دل کمزور ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خدا دلوں پر ہی نگاہ کرتا ہے۔ خدا دل پر نگاہ کرتا اور اِسے جانچتا ہے۔ خدا دل کو جانچتا ہے چاہے یہ درست ہے یا غلط۔ خدا جانچتا ہے کہ آیا ہم واقعی دل سے ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔ کیا آپ سمجھ رہےہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا ہمارے دلوں پر نگاہ کرتا اور انہیں جانچتا ہے؟ جب وہ ہمارے دلوں کو جانچتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ آیا ہم یسوع پر دل سے ایمان لاتے ہیں یا نہیں۔ کیا آپ اپنے دل سے ایمان لائے ہیں؟
جب خدا ہمارے دلوں کو جانچتا ہے تو وہ مشاہدہ کرتا ہے کہ آیا ہم دل سے ایما ن رکھتے ہیں یا نہیں۔ وہ ہمارے دلوں کو پرکھتا ہے۔ ہمیں خدا کی حضوری میں اپنے دلوں کو جانچنا چاہیے۔ختنہ وہی ہے جو دل کا۔ کیا آپ دل سے ایمان لاتے ہیں؟ کہ خدا دلوں پر نگاہ کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ آیا ہم واقعی ہی دل سے ایمان لاتے ہیں یا نہیں۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ آیا ہم واقعی سچائی سے واقف ہیں یا نہیں اور ہم اِسے قبول کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔وہ اِس بات کو خاطر میں لاتا ہے کہ آیا ہم دلوں سے ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور یہ کہ ہم اُسکے کلام پر ایمان لا کر اُس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
 
 
یہاں ایک مذہبی جماعت ہے جو نئے سرے سے پیدا ہونے کے بالکل صحیح وقت کو ہی اہمیت دیتی ہے
 
یسوع مسیح کے فرمان کے متعلق صحیح صحیح علم ہونا اور اِس پر دل سے ایمان لانا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں ایک مذہبی جماعت ہے جو ہمارےگرجاگھرکے بھائیوں اور بہنوں کو بتاتے ہیں کہ وہ نجات یافتہ نہیں ہیں۔ مجھے اِس مذہبی جماعت میں شامل تمام روحوں پر بڑا ترس آتا ہے۔میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے سمجھیں اور اُنہیں پانی اور روح کی خوشخبری دیں۔کیا آپ کے گناہ مِٹ گئے ہیں؟ —آمین —کیا آپ دل سے اِس پر ایمان رکھتے ہیں؟
مگر یہاں بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان درست نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں کلام
پر ایمان کی بجائے صرف سائنس کے اُن کرشمات پر جنہیں وہ ثابت کرتی ہےایمان لانا چاہیے ۔وہ کہتے ہیں کہ یہی کامل نجات اور کامل ایمان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک شخص نئے سرے سے پیدا ہوتا ہے تو اُس کے لئے بالکل اُسی لمحہ ( گھنٹہ ،تاریخ ،مہینہ )کو جاننا بہت ضروری ہے۔جب بھائی ہیونگ اُن میں سے ایک شخص سے ملے، تو اُس شخص نے بھائی ہیونگ سےپوچھا، کب آپ نئے سرے سے پیدا ہُوے تھے، اِسطرح بھائی ہیونگ نے جواب دیاکہ اُنکو تاریخ اور گھنٹہ تو ٹھیک طرح یا د نہیں ،لیکن وہ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان لانے کے وسیلہ، پچھلے سال تقریباً اِس گھڑی پیدا ہوئے تھے۔ پھر اُس نے کہا کہ بھائی ہیونگ نے ابھی تک نجات نہیں پائی تھی۔
 بیشک ،ہم بالکل صحیح گھڑی اور مہینہ اور دن کو بیان کر سکتے ہیں اگر ہم واپس جھانکیں کہ کب ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے تھے۔ یہاں تک ہم یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ یہ صبح یا دوپہر یا شام کا یا کوئی بھی وقت تھا۔ تاہم، نجات دل سے ایمان لانے پر انحصا ر کرتی ہے۔ اِس کا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کو اصل وقت یا د ہے یا نہیں یا آپ اِس کو یا د رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔
 
 
ختنہ وہی ہے جو دل کا
 
خداوند نے ہمارے سب گناہوں کو دریائے یردن پر اپنے اوپر اُٹھا لِیا اور ہمارے گناہوں کی خاطر اُس پر سیاست ہوئی اور وہ ہماری خاطر مصلوب ہو گیا۔ ہماری خطاؤں کے سبب وہ گھائل ہُوا اور ہماری بدکاریوں کیلئے وہ کُچلا گیا۔اُس نے ہمارے ظاہری اور باطنی آدم کے سب گناہوں کو دور کر دیا۔ ہماری روحیں پھر موت سے جی اُٹھیں ہیں اور اَب ہم خداوند کے پیچھے چل سکتے ہیں کیونکہ وہ اِس سے خوش ہوتا ہے اور پھر بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نجات یا فتہ نہیں ہیں۔
بائبل مقدس ظاہری آدم کے متعلق کیا کہتی ہے؟ گناہوں کی معافی پانے کے فوراً بعد ہمارے سامنے اور زیادہ بدیا ں اور کمزوریا ں آموجود ہوتی ہیں۔ ہماری وہ سب کمزوریاں جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی :وہ ظاہر ہو جاتی ہیں۔ تاہم، اگر ہم دل سے ایمان لائیں کہ خدا ہمارا خدا ہے اور یہ کہ یسوع نے دریائے یردن میں اپنے بپتسمہ کے وسیلہ ہمارے سب گناہوں کو دور کر دیا اور اُسکے مصلوب ہونے سے ہم نے نجات پائی ہے تو پھر ہم نجات یافتہ ہیں۔
ہم اُن لوگوں کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے جو کہ صرف اُس تا ریخ کو ہی اہمیت دیتے ہیں جب وہ نئے سرے سے پیدا ہوئے تھے اور صرف اُس بات پر ایمان رکھتے ہیں جسے سائنس ثابت کر تی ہے۔ واضح رہے، کہ وہ نجات یافتہ نہیں ہیں۔ہم راستباز ٹھہرنے کیلئے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے—آمین— ایمان اِسی نقطہ سے شروع ہوتا ہے اور خداوند اُسی وقت سے ہمارے دلوں کی راہنمائی کر تا ہے۔ خداوند فرماتاہے کہ ہمارے ایمان سچے ہیں اور ہم اُس کے راستباز فرزند ہیں۔ وہ ہمیں برکتیں دیتا اور ہم سے چاہتا ہے کہ ہم ایمان کے وسیلہ دل سے اُس پر ایمان لائیں۔جب ہم دل سے ایمان لانے کے وسیلہ اُس کے ساتھ چلتے ہیں تو وہ ہمیں برکت پر برکت دیتا ہے۔
” ختنہ وہی ہےجو دل کا۔“ ہم نے اپنے دل سے ایمان لانے کے وسیلہ نجات پائی ہے۔ بہت سارے لوگ اِس روئے زمین پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے خوشخبری پر ایمان لانے کے وسیلہ نجات پائی ہے۔ تاہم ،در اصل وہ اپنے ایمان میں اپنے کاموں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ وہ ظاہری آدم کے کاموں کو اپنے ایمان کی لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پانی اور ورح کی خوشخبری پر ایمان آپکو نجات کی طرف نہیں لےجا سکتا۔ کیونکہ وہ اپنے پارسائی کے کاموں کو اور ایمان کو آپس میں ملا دیتے ہیں۔
نتیجہ کے طور پر، اُنکا دھیان اِس بات پر زیا دہ ہو جا تا ہے کہ ظاہر ی آدم کو کیسے پاک کیا جائے اور اسلئے وہ اکثر توبہ کی دُعاوں میں ہی لگے رہتے ہیں۔ اگرچہ اُن کا خیا ل ہے کہ وہ نجات پا چکے ہیں تو بھی وہ نجات سے بہت دور ہیں۔
 
 
خدا دلوں پر نگاہ کرتا ہے
 
ہم اپنے دلوں میں راستباز ٹھہرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ خالصتاً ظاہری زندگی سے الگ ایمان ہے اور ہمارے کاموں کا اس میں کچھ عمل دخل نہیں ہے۔نجات کا ہمارے کاموں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔ کیا یہ جاننے کے بعد آپ تازہ دم ہیں کہ آپکے سب گناہ مٹا دیئے گئے ہیں؟ کیا آپ خوشی سے خداوند کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ خوشخبری کی منادی خوشی سے کرتے ہیں؟کیا آپ اپنےآپکو اُس کے خوبصور ت مِشن میں مصروف کرنا چاہتے ہیں؟جب ہم اپنے دلوں سے ایمان لاتے ہیں تو ہمارے دل شکرگذاری سے بھر جاتے ہیں کیونکہ خدا ہمارے دل کے ایمان کو منظور کرتا ہے۔اس لئے،خدا کے نزدیک دل بہت اہم ہے۔